Resources Word

Revelation Verse by Verse Chapter 1 To 5— In the Light of the End Time Message

مکاشفہ کی کتاب


آیت بہ آیت تفسیر پیغام کی روشنی میں

مرتب: برادرجاوید جارج

خادمِ کلام اور پیغام کے مطالعہ و تدریس میں مصروف

بنیاد🔹
1960–1965 کے دوران بھائی ولیم برادر برینہم کے پیغامات، خصوصاًسات کلیسیائی ادوار اور سات مہروں کی سیریززبان: اردو (سادہ اور قابلِ فہم اسلوب، تاکہ ہر قاری بہ آسانی سمجھے)

مقصدِ تحریر🔹
مکاشفہ کی کتاب کو برادر برینہم کی تعلیمات کی روشنی میں آیت بہ آیت واضح کرنا، تاکہ قاری نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی زندگی میں لاگو کرے

ہدفِ قارئین🔹
اردو اور ہندی بولنے والے مخلص ایماندار، خدام، طلبہ اور وہ سب جو بائبل اور پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں

نسخہ اوّل🔹
ستمبر 2025 ابتدائی اشاعت برائے نظرثانی اور مطالعہ

پیش لفظ

خداوند یسوع مسیح کے نام میں۔
میری سب سے بڑی دعا اور خواہش یہ ہے کہ مکاشفہ کی اس عظیم اور پر اسرار کتاب کو اردو قارئین تک آسان، صاف اور روحانی طور پر بابرکت انداز میں پہنچاؤں۔ یہ کتاب نہ تو ایک عام تاریخی نوٹ ہے اور نہ صرف علامتی زبان میں قید کسی پرانی تحریر، بلکہ یہ خدا کی طرف سے ایک زندہ اور روحانی مکاشفہ ہے جو یسوع مسیح کے بارے میں ہے۔ اس کتاب میں خدا نے اپنی نجات کے منصوبے کا آخری حصہ ظاہر کیا ہے تاکہ اُس کی دلہن کلیسیا جان سکے کہ اُس کا مقام، اُس کا بلاوا اور اُس کا مستقبل کیا ہے۔
برادر ولیم برینہم نے 1960 سے 1965 تک جو واعظ دیے، اُن میں مکاشفہ کی کتاب کو خاص طور پر کھولا۔ "کلیساٰئی سات ادوار"، "سات مہریں" اور دیگر پیغامات میں انہوں نے واضح کیا کہ یہ کتاب دراصل دلہن کلیسیا کے لیے آخری زمانے میں رہنمائی ہے۔ اُن کے مطابق یہ کتاب خدا کی محبت کا خط ہے جو اپنی دلہن کو دکھاتا ہے کہ وہ کس طرح ہر زمانے میں اُس کے ساتھ رہا اور آخر میں اُسے اپنے ساتھ جلال میں لے جائے گا۔

کتاب کا تعارف

موضوع:🔹
مکاشفہ کی کتاب کی آیت بہ آیت تفسیر۔
طریقہ:🔹
بائبل کا متن اصل بنیاد ہے۔ وضاحت کے لیے برادر برینہم کے 1960–1965 کے پیغامات استعمال کیے گئے ہیں۔
انداز:🔹
آسان زبان، تفصیلی وضاحت، اور عملی اسباق۔
قاری:🔹
وہ سب جو بائبل اور پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

مکاشفہ کی کتاب کا پس منظر:🔹
مکاشفہ کا قلمکار رسول یوحنا ہے جو یسوع مسیح کے بارہ رسولوں میں شامل تھا اور جسے "پیارا شاگرد" بھی کہا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق یہ کتاب پہلی صدی عیسوی کے آخر میں لکھی گئی، غالباً 95–96 عیسوی میں، قیصر دومیشیان کی حکومت کے زمانے میں کلیسیا سخت ظلم اور مظالم کی لپیٹ میں تھی۔ اس وقت مسیحیوں کو رومی سلطنت میں قید، تشدد اور شہادت کا سامنا تھا۔
یوحنا اپنی وفاداری اور یسوع مسیح کی گواہی کے سبب گرفتار ہوا اور اُسے بحیرۂ یونان کے ایک چھوٹے اور ویران جزیرہ، پطمس پر جلاوطنی کی سزا دی گئی۔ یہ جزیرہ سخت قید کی جگہ تھی جہاں قیدی مزدوری اور مشقت میں اپنی زندگیاں گزارتے تھے۔ مگر انہی مشکل حالات میں خدا نے یوحنا پر مکاشفہ کی عظیم کتاب ظاہر کی۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ خدا اپنی سب سے بڑی باتیں اکثر اپنے بندوں پر تنہائی، قید اور دکھ کی گھڑیوں میں کھولتا ہے۔
یوحنا نے اپنی اس رویا کو قلمبند کیا جو اُس پر خدا کی حضوری میں ظاہر ہوئی۔ اس کتاب میں ہمیں خدا کے منصوبۂ نجات کا آخری حصہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ محض علامتی تحریر نہیں بلکہ ایک زبردست نبوت ہے جو کلیسیا اور دنیا کے مستقبل کو کھولتی ہے۔

اس رویا میں کئی اہم پہلو شامل ہیں۔:🔹
یسوع مسیح کا جلال اور اُس کی دوبارہ آمد، جو دلہن کلیسیا کے لیے سب سے بڑی اُمید ہے۔●
سات کلیسیائی ادوار اور اُن کے پیامبر، جن کے ذریعے خدا نے ہر دور میں اپنی روشنی بخشی۔●
آسمانی تخت گاہ اور برّہ کی عبادت، جہاں ساری مخلوق خدا کو جلال دیتی ہے۔●
سات مہریں، جن کے کھلنے سے خدا کے راز اور منصوبے ظاہر ہوتے ہیں۔●
سات نرسنگے اور سات پیالے، جو زمین پر عدالت لاتے ہیں۔●
بابلِ عظیم کا زوال اور شیطان کی آخری شکست۔●
یسوع مسیح کا ہزار سالہ دورِ حکومت جس میں وہ اپنی دلہن کے ساتھ بادشاہی کرے گا۔●
نیا آسمان اور نئی زمین جہاں خدا اپنی دلہن کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سکونت کرے گا۔●
یہ پس منظر ہمیں بتاتا ہے کہ مکاشفہ کی کتاب صرف اُس زمانے کے مسیحیوں کے لیے نہیں بلکہ آج کی دلہن کلیسیا کے لیے بھی ہے، تاکہ وہ اپنے وقت کو پہچان سکے اور آنے والے جلال کے لیے تیار ہو۔

تفسیر — باب 1: ابنِ آدم کا مکاشفہ

آیت 1باب1🔹
یسوع مسِیح کا مُکاشفہ جو اُسے خُدا کی طرف سے اِس لِئے ہُؤا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دِکھائے جِن کا جلد ہونا ضرُور ہے اور اُس نے اپنے فرِشتہ کو بھیج کر اُس کی معرفت اُنہِیں اپنے بندہ یُوحنّا پر ظاہِر کِیا۔

یہ آیت پوری کتاب کا تعارف ہے۔ یہاں ہمیں سب سے پہلے بتایا گیا ہے کہ مکاشفہ اصل میں یسوع مسیح کا ہے۔ یہ یوحنا کا مکاشفہ نہیں بلکہ یسوع مسیح کی ذات اور اُس کے منصوبۂ نجات کا مکاشفہ ہے۔ اس میں وہ باتیں کھولی گئی ہیں جو آئندہ ضرور پوری ہونی ہیں۔ ترتیبِ نزول یہ ہے: خدا → یسوع مسیح → فرشتہ → یوحنا → کلیسیا۔ اس ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کبھی بھی اپنی مرضی کو بے ترتیب ظاہر نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ایک مقررہ الٰہی چینل کے ذریعے کام کرتا ہے۔ برادر برینہم نے کہا کہ خدا کا طریق ہمیشہ ایک نبی یا قاصد کے ذریعے اپنی بات ظاہر کرنا ہے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یوحنا کو ایک فرشتہ کے ذریعے مکاشفہ ملا تاکہ وہ کلیسیا کو پہنچا سکے۔

باب1آیت 2🔹
جِس نے خُدا کے کلام اور یِسُوع مسِیح کی گواہی کی یعنی اُن سب چِیزوں کی جو اُس نے دیکھی تھِیں شہادت دی۔

یہاں یوحنا اپنی گواہی بیان کرتا ہے۔ اُس نے نہ صرف سنی ہوئی بات بلکہ دیکھی ہوئی رویا بھی قلمبند کی۔ مکاشفہ صرف الفاظ پر مشتمل نہیں بلکہ ایک عملی تجربہ بھی ہے۔ "یسوع کی گواہی" ہی نبوت کی اصل روح ہے (مکاشفہ 19:10)۔ یعنی سچی نبوت ہمیشہ یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہے، نہ کہ انسان کی بڑائی کی طرف۔ یوحنا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جو کچھ اُس نے لکھا وہ اُس کی اپنی سوچ نہیں بلکہ براہِ راست الٰہی مکاشفہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خدا کے کلام پر انسانی رائے نہیں بلکہ روح القدس کی گواہی ہی اصل بنیاد ہے۔

باب1آیت3🔹
اِس نُبُوّت کی کِتاب کا پڑھنے والا اور اُس کے سُننے والے اور جو کُچھ اِس میں لِکھا ہے اُس پر عمل کرنے والے مُبارک ہیں کِیُونکہ وقت نزدِیک ہے۔

یہ آیت مکاشفہ کی کتاب کو ایک برکت بھری کتاب قرار دیتی ہے۔ یہاں تین درجے بیان کیے گئے ہیں: (1) پڑھنا، (2) سننا، اور (3) عمل کرنا۔
برکت صرف اُس وقت ملتی ہے جب ہم ان تینوں مراحل کو پورا کرتے ہیں۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ محض پڑھ لینا یا سن لینا برکت نہیں لاتا بلکہ اطاعت ہی اصل برکت ہے۔ یہ آیت ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ مکاشفہ صرف علم کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے لیے ہے۔ آخر میں کہا گیا: "وقت قریب ہے" — یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کتاب آخری زمانے کے حالات سے تعلق رکھتی ہے۔ خدا کے نزدیک وقت انسان کے وقت سے مختلف ہے، لیکن جیسے ہی کلیسیا کے ادوار شروع ہوئے، گھڑی آخری زمانے کی طرف چل پڑی۔

باب1آیات 4–6🔹
یوحنا ایشیا کی سات کلیسیاؤں کو سلام بھیجتا ہے
یُوحنّا کی جانِب سے اُن سات کلِیسیاؤں کے نام جو آسیہ میں ہیں۔ اُس کی طرف سے جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے اور اُن ساتھ رُوحوں کی طرف سے جو اُس کے تخت کے سامنے ہیں۔
اور یِسُوع مسِیح کی طرف سے جو سَچّا گواہ اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا اور دُنیا کے بادشاہوں پر حاکِم ہے تُمہیں فضل اور اِطمینان حاصِل ہوتا رہے۔ جو ہم سے محبّت رکھتا ہے اور جِس نے اپنے خُون کے وسِیلہ سے ہم کو گُناہوں سے خلاصی بخشی۔ اور ہم کو ایک بادشاہی بھی اور اپنے خُدا اور باپ کے لِئے کاہِن بھی بنا دِیا۔ اُس کا جلال اور سلطنت ابدُالآباد رہے۔ آمِین۔

یہاں مسیح کے تین عظیم القاب بیان ہوئے
امین گواہ — اُس کی زمینی خدمت میں کامل وفاداری۔●
مُردوں میں سے پہلوٹھا — قیامت میں اُس کی فوقیت اور فتح۔●
بادشاہوں پر سردار — آئندہ اُس کی عالمی بادشاہی۔●
سات روحیں — ایک ہی روح القدس کے سات پہلو●

یہاں "سات روحیں" کا ذکر آتا ہے جو خدا کے تخت کے سامنے ہیں۔ یہ کوئی سات الگ الگ روحیں نہیں بلکہ روح القدس کی سات جہتیں یا پہلو ہیں، جو ہر دور میں خدا کے منصوبے کے مطابق ظاہر ہوئیں۔
برادر برینہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ سات روحیں دراصل سات کلیسیائی ادوار میں روح القدس کے سات مختلف کاموں کی نمائندگی ہیں۔
جیسے سورج اپنی شعاعوں میں سات رنگوں کو ظاہر کرتا ہے، اسی طرح روح القدس نے ہر زمانے میں الگ الگ طریقے سے اپنے آپ کو ظاہر کیا۔
مثلاً افسس میں شیر کی قوت، سُمرنہ میں بچھڑے کی قربانی، پرگمنس میں حکمت، اور آخری زمانے میں عقاب کا مکاشفہ۔
یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ روح القدس کلیسیا کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا بلکہ ہر زمانے کے لیے اپنی روشنی، قوت اور راہنمائی دیتا ہے۔
بادشاہ اور کاہن بنائے گئے
یہاں کہا گیا: "اُس نے ہمیں بادشاہ اور کاہن بنایا۔"
کاہن اس بات کی علامت ہے کہ ہم عبادت کرنے والے ہیں، جو خدا کے حضور میں شفاعت کرتے ہیں اور اُس کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔
بادشاہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں اختیار اور سلطنت عطا کی گئی ہے، تاکہ ہم گناہ، دنیا اور شیطان پر غالب آئیں اور آئندہ مسیح کے ساتھ حکومت کریں۔
برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یہ صرف ایک مستقبل کی بات نہیں بلکہ ابھی کی حقیقت ہے۔ ایماندار کو نہ صرف عبادت گزار بلکہ روحانی بادشاہ بھی ہونا ہے جو اپنی زندگی پر روحانی اختیار کے ساتھ راج کرے۔
ہماری شناخت اور مقام
یہ آیات کلیسیا کو اُس کی اصل شناخت یاد دلاتی ہیں:
ہم غلام نہیں بلکہ بیٹے اور وارث ہیں (رومیوں 8:17)۔
ہم صرف مانگنے والے نہیں بلکہ مسیح کے شریکِ وارث ہیں۔
ہماری دعا محض درخواست نہیں بلکہ بادشاہی اختیار کے ساتھ شفاعت ہے۔
یہاں ایک عظیم پیغام چھپا ہے: خدا نے اپنی دلہن کلیسیا کو نہ صرف نجات دی بلکہ اُسے اپنی بادشاہت اور کہانت میں شریک بنایا۔ یہ ہمیں ہماری روحانی پہچان اور ذمہ داری دونوں یاد دلاتا ہے — کہ ہم اُس کے حضور وفادار کاہن ہوں اور دنیا میں اُس کی بادشاہی کے نمائندے۔

باب1آیات 7–8🔹
دیکھو وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جِنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمِین پر کے سب قبِیلے اُس کے سبب سے چھاتی پِیٹیں گے۔ بیشک۔ آمِین۔
خُداوند خُدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادِرِ مُطلَق فرماتا ہے کہ مَیں الفا اور اومیگا ہُوں۔

یہ آیات مسیح کی دوسری آمد کی تصویر ہیں۔ "بادلوں کے ساتھ آتا ہے" اس کی جلالی آمد کو ظاہر کرتا ہے، جیسے رسولوں کے اعمال 1:9–11 میں لکھا ہے کہ جس طرح وہ بادلوں پر اُٹھایا گیا اُسی طرح واپس آئے گا۔ ہر آنکھ اُسے دیکھے گی — یعنی اُس کی آمد سب کے لیے ظاہر ہوگی، یہاں تک کہ اُس کے دشمن بھی اُسے دیکھیں گے۔ "جنہوں نے اُسے چھیدا" کا اشارہ یہودی قوم اور اُن سب کی طرف ہے جنہوں نے اُس کی مخالفت کی۔ برادر برینہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ آمد صرف جسمانی نہیں بلکہ کلام کے ذریعے بھی ہے، جب وہ اپنے کلام کو کھولتا اور اپنی عدالت ظاہر کرتا ہے۔ "الفا اور اومیگا" اُس کی الوہیت کا اعلان ہے — وہی ابتدا ہے اور وہی انجام۔
الفا اور اومیگا — یسوع کی الوہیت کا اعلان
یونانی زبان کا پس منظر
"الفا" (Α) یونانی حروفِ تہجی کا پہلا حرف ہے۔
"اومیگا" (Ω) آخری حرف ہے۔
جب یسوع نے کہا "میں الفا اور اومیگا ہوں" تو اُس نے اپنی ذات کو ابتدا اور انتہا قرار دیا۔
ہمیشہ سے موجود خدا
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع مسیح کسی خاص وقت سے شروع نہیں ہوا بلکہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
اُس کی الوہیت کا مطلب ہے کہ وہ محدود نہیں بلکہ لامحدود اور ابدی ہے۔
ازل سے ابد تک اختیار:
یہ الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تاریخ کا آغاز بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے اور انجام بھی اُسی کے اختیار میں ہے۔
جو کچھ درمیانی عرصے میں ہو رہا ہے، وہ بھی اُس کے منصوبے کے تحت ہے۔
مکمل نجات کا مالک:
نجات کی ابتدا بھی مسیح سے ہے (الفا)، کیونکہ اُس نے صلیب پر قربانی دی۔
نجات کا انجام بھی مسیح سے ہے (اومیگا)، کیونکہ وہ اپنی دلہن کو جلال میں لے جائے گا۔
برادر برینہم کی وضاحت:
وہ فرماتے ہیں کہ یسوع نہ صرف ایک نبی، استاد یا رہنما ہے بلکہ خود خدا مجسم ہے۔
"الفا اور اومیگا" کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ یسوع کی ہستی شروع اور انتہا دونوں پر محیط ہے، وہی الوہیت کا سرچشمہ ہے۔
اس لیے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ یسوع "الفا اور اومیگا" ہے، تو ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی کا آغاز بھی اُس میں ہے اور انجام بھی اُس میں ہے۔ وہی ابتدا ہے، وہی انجام، اور اُسی کے باہر کچھ نہیں۔

تفسیر — باب 1: ابنِ آدم کا مکاشفہ
آیات 9–11 — یوحنا کی گواہی اور خداوند کا دن🔹
یوحنا اپنے بارے میں بتاتا ہے
مَیں یُوحنّا جو تُمہارا بھائِی اور یِسُوع کی مُصِیبت اور بادشاہی اور صبر میں تُمہارا شرِیک ہُوں خُدا کے کلام اور یِسُوع کی نِسبت گواہی دینے کے باعِث اُس ٹاپُو میں تھا جوپتمُس کہلاتا ہے۔
کہ خُداوند کے دِن رُوح میں آگیا اور اپنے پِیچھے نرسِنگے کی سی یہ ایک بڑی آواز سُنی۔
کہ جو کُچھ تُو دیکھتا ہے اُس کو کِتاب میں لِکھ کر ساتوں کلِیسیاؤں کے پاس بھیج دے یعنی اِفِسُس اور سمُرنہ اور پِرگمُن اور تھُواتِیرہ اور سردِیس اور فِلدِلفیہ اور لَودِیکیہ میں۔
مصیبت اور بادشاہت اور صبر میں شریک" — یوحنا بتاتا ہے کہ مسیحی ایمان صرف بادشاہت اور جلال نہیں بلکہ دکھ، صبر اور برداشت بھی ہے۔
وہ پطمس جزیرہ پر جلاوطن تھا، جو قیدیوں اور مزدوروں کے لیے سخت سزا کی جگہ تھی۔ اُس کی قید کی واحد وجہ یہ تھی کہ اُس نے "یسوع کی گواہی" دی۔
یوحنا کہتا ہے: "میں روح میں خداوند کے دن میں تھا۔
"روح میں ہونا" کا مطلب ہے کہ وہ اپنی جسمانی حالت سے اوپر اُٹھا کر مکاشفہ اور وحی کی دنیا میں لے جایا گیا۔
"خداوند کا دن" محض ہفتہ وار اتوار نہیں بلکہ مستقبل کی عدالت اور مسیح کی بادشاہی کا دن ہے۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یوحنا کو وقت سے آگے لے جایا گیا تاکہ وہ آنے والے دنوں کی جھلک دیکھ سکے، خاص طور پر وہ عدالت جو دنیا پر آنے والی ہے اور وہ جلال جو دلہن کلیسیا کو ملنے والا ہے۔
یوحنا نے ایک بڑی آواز سنی جو نرسنگے کی مانند تھی۔ نرسنگا ہمیشہ اعلان اور انتباہ کے لیے بجایا جاتا ہے۔
یہ آواز یسوع مسیح کی تھی، جو کلیسیا کو پیغام دے رہا تھا۔ اُس نے کہا: "جو کچھ دیکھتا ہے اُسے کتاب میں لکھ اور سات کلیسیاؤں کو بھیج۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکاشفہ صرف یوحنا کے لیے ذاتی تجربہ نہیں تھا بلکہ کلیسیا کے لیے خدا کا پیغام تھا۔
برادر برینہم کی وضاحت
برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یوحنا دراصل وقت سے باہر لے جایا گیا تاکہ وہ آخری زمانے کے پورے مناظر دیکھ سکے۔
"نرسنگے کی آواز" ایک نبوی آواز ہے، جو ہمیشہ خدا کے منصوبے کو اعلان کرتی ہے۔
خدا کا کلام کبھی بھی انسان کی ذاتی رائے نہیں ہوتا، بلکہ براہِ راست وحی ہے جسے کلیسیا تک پہنچانا ضروری ہے۔
آیات 12–16 یوحنا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور سات چراغدان دیکھے، جو سات کلیسیاؤں اور اُن کے ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن چراغدانوں کے بیچ میں ابنِ آدم کھڑا تھا۔ اُس کی شان و صورت یوں بیان ہوئی: سر اور بال سفید اون کی مانند (حکمت اور عدالت)۔●
آنکھیں آگ کی شعاعوں کی مانند (پرکھنے والی)۔●
پاؤں پیتل کی مانند (عدالت میں مضبوطی)۔●
آواز بہت سے پانیوں کی مانند (قوموں پر اثر رکھنے والی)۔●
ہاتھ میں سات ستارے (سات پیغامبر)۔●
منہ سے دو دھاری تلوار (کلامِ خدا)۔●
چہرہ سورج کی مانند (جلال اور روشنی)۔●
یہ منظر کلیسیا کو یقین دلاتا ہے کہ یسوع اپنی دلہن کے درمیان چلتا ہے اور اُس پر غالب رہتا ہے۔ آیات 17–18 یوحنا ڈر کے مارے گر پڑا، لیکن یسوع نے کہا: "خوف نہ کر، میں اوّل اور آخر ہوں، اور زندہ ہوں؛ میں مر گیا تھا لیکن دی
<brباب1آیات 12–16🔹
مَیں نے اُس آواز دینے والے کو دیکھنے کے لِئے مُنہ پھیرا جِس نے مُجھ سے کہا تھا اور پھِر کر سونے کے سات چراغدان دیکھے۔
اور اُن چراغدانوں کے بِیچ میں آدمزاد سا ایک شَخص دیکھا جو پاؤں تک کا جامہ پہنے اور سونے کا سِینہ بند سِینہ پر باندھے ہُوئے تھا۔
اُس کا سر اور پال سفید اُون بلکہ برف کی مانِند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شُعلہ کی مانِند تھِیں۔
اور اُس کے پاؤں اُس خالِص پِیتل کے سے تھے جو بھٹّی میں تپایا گیا ہو اور اُس کی آواز زور کے پانی کی سی تھی۔
اور اُس کے دہنے ہاتھ میں ساتھ سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نِکلتی تھی اور اُس کا چہِرہ اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب۔

سات چراغدان●
یوحنا نے سب سے پہلے سات چراغدان دیکھے۔ یہ صرف ایشیا کی سات مقامی کلیسیائیں نہیں بلکہ سات کلیسیائی ادوار کی نمائندگی ہیں، جو رسولی دور سے شروع ہو کر آخری زمانے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
چراغدان روشنی کی علامت ہے، یعنی کلیسیا کو دنیا میں روشنی بننا ہے۔ لیکن چراغدان اپنی ذات میں روشنی نہیں رکھتا — تیل (روح القدس) کے بغیر وہ جل نہیں سکتا۔ اس لیے یہ منظر کلیسیا کو یاد دلاتا ہے کہ اُس کی روشنی صرف مسیح سے ہے۔

ابنِ آدم چراغدانوں کے بیچ میں●
مسیح کو چراغدانوں کے بیچ کھڑا دکھایا گیا، یعنی وہ ہر دور میں اپنی کلیسیا کے ساتھ ہے۔ وہ دور کے حالات چاہے کیسے بھی ہوں، کلیسیا کبھی تنہا نہیں۔
"ابنِ آدم" کا لقب اُس کی عدالت کرنے والی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے (یوحنا 5:27)۔ آخری زمانے میں وہ دلہن کلیسیا کو کلام کے معیار پر پرکھنے والا ہے۔
سر اور بال سفید اون کی مانند●
یہ اُس کی ازلی حکمت اور پاکیزگی کی علامت ہے۔
سفید بال بزرگ اور عدالت کرنے والے کی حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں (دانی ایل 7:9 میں بھی یہی منظر ہے)۔
آنکھیں آگ کی شعاعوں کی مانند●
یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ کوئی بھی پوشیدہ بات اُس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔
اُس کی نظر گہرائی تک جاتی ہے اور دل کے خیالات تک کو پرکھتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ظاہری مذہب سے نہیں بلکہ دل کی سچائی سے پرکھے جاتے ہیں۔
پاؤں پیتل کی مانند●
پیتل ہمیشہ عدالت کی علامت ہے (جیسا کہ پرانے عہدنامہ کے قربان گاہ پر پیتل استعمال ہوا)۔
مسیح کے پاؤں جلتے پیتل جیسے ہیں — یعنی اُس کی عدالت پاک، مضبوط اور ناقابلِ بدل ہے۔ وہ گناہ کو ہرگز نظرانداز نہیں کرتا۔
آواز بہت سے پانیوں کی مانند●
اُس کی آواز سب قوموں پر اثر رکھتی ہے۔ یہ صرف ایک قوم یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا تک پہنچتی ہے۔
جیسے سمندر کی لہریں سننے والے کو ہلا دیتی ہیں، ویسے ہی اُس کا کلام سب پر غالب آتا ہے۔
ہاتھ میں سات ستارے●
یہ سات کلیسیائی پیغامبر ہیں۔ برادر برینہم کے مطابق یہ وہ خدا کے برگزیدہ خدام ہیں جنہیں ہر زمانے میں کلیسیا کو روشنی دینے کے لیے بھیجا گیا۔
یہ ستارے اُس کے ہاتھ میں ہیں، یعنی اُن کا اختیار اور حفاظت صرف مسیح کے ہاتھ میں ہے، نہ کہ کسی تنظیم یا دنیاوی طاقت کے ہاتھ میں۔
منہ سے دو دھاری تلوار●
یہ کلامِ خدا ہے (عبرانیوں 4:12)۔ یہ تلوار پرکھنے اور عدالت کرنے والی ہے۔
دو دھاری کا مطلب ہے کہ یہ نجات بھی دیتی ہے اور عدالت بھی۔ جو قبول کرے وہ بچتا ہے، اور جو رد کرے وہ ہلاک ہوتا ہے۔
چہرہ سورج کی مانند●
اُس کا جلال سورج کی مانند ہے جو اپنی روشنی سے سب پر غالب آتا ہے۔
یہ اُس کی دوبارہ آمد اور دلہن پر ظاہر ہونے والے جلال کی پیش گوئی ہے۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یہ منظر کلیسیا کو یاد دلاتا ہے کہ مسیح اپنی روشنی سے ہر اندھیرے کو ختم کرتا ہے۔
سبق ہمارے لیے●
کلیسیا کی روشنی اپنی نہیں بلکہ مسیح سے ہے۔
مسیح ہر دور میں اپنی دلہن کے ساتھ موجود ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
اُس کی نظر ہر چیز کو پرکھتی ہے — ہمیں اپنے دل صاف رکھنے ہیں۔
غالب آنے والوں کے لیے وہ بادشاہ اور کاہن ہونے کا مقام رکھتا ہے۔
اُس کا کلام دو دھاری تلوار ہے — ہمیں اُسے قبول اور اُس پر عمل کرنا ہے۔

باب1آیات 17–18🔹
جب مَیں نے اُسے دیکھا تو اُس کے پاؤں میں مُردہ سا گِر پڑا اور اُس نے یہ کہہ کر مُجھ پر اپنا دہنا ہاتھ رکھّا کہ خَوف نہ کر۔ مَیں اوّل اور آخِر۔
اور زِندہ ہُوں۔ مَیں مر گیا تھا اور دیکھ! ابدُالآباد زِندہ رہُوں گا اور مَوت اور عالمِ ارواح کی کُنجِیاں میرے پاس ہیں۔
یوحنا کا خوف اور ردعمل
یوحنا نے جب یہ جلالی منظر دیکھا تو وہ ڈر کے مارے مردہ سا ہو کر زمین پر گر پڑا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی جسم اور قوت خدا کے جلال کو برداشت نہیں کر سکتے۔
پرانے عہدنامہ کے نبی بھی جب خدا کی حضوری میں آئے تو اکثر گر گئے (مثلاً دانی ایل 10:8-9)۔ اس لیے یہ منظر بتاتا ہے کہ خدا کی حضوری میں فخر اور غرور نہیں بلکہ عاجزی اور لرزہ ہی ہوتا ہے۔
یسوع کی تسلی
یسوع نے اپنا دہنا ہاتھ یوحنا پر رکھا اور کہا: "خوف نہ کر"۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو یسوع اکثر اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا (متی 14:27، لوقا 12:32)۔
یہ تسلی صرف یوحنا کے لیے نہیں بلکہ ہر اس ایماندار کے لیے ہے جو خوف یا مشکل حالات میں ہے۔
یسوع کی پہچان
"میں اوّل اور آخر ہوں" — وہی الفاظ جو آیات 7–8 میں "الفا اور اومیگا" کے طور پر بیان ہوئے تھے۔ یہ اُس کی ازلی اور ابدی الوہیت کا اعلان ہے۔
"میں زندہ ہوں" — اُس کی قیامت کی گواہی ہے۔ وہ صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
موت پر فتح
"میں مر گیا تھا لیکن دیکھو ابد تک زندہ ہوں" — صلیب پر اُس کی موت حقیقی تھی، مگر قیامت نے ثابت کر دیا کہ موت اُس پر غالب نہیں آ سکتی۔
یہ بیان کلیسیا کو یہ یقین دلاتا ہے کہ موت اب آخری حقیقت نہیں رہی، بلکہ صرف ایک گزرگاہ ہے جو ہمیں ابدی زندگی تک لے جاتی ہے۔
موت اور عالمِ ارواح کی کنجیاں
"کنجیاں" اختیار اور اقتدار کی علامت ہیں۔ یسوع نے موت اور ہاویس (Hades، یعنی قبر یا عالمِ ارواح) پر اختیار حاصل کر لیا۔
اس کا مطلب ہے کہ شیطان اب ایماندارکو موت میں قید نہیں رکھ سکتا۔ ایماندار مرنے کے بعد بھی مسیح کے ساتھ ہے، کیونکہ کنجیاں اُس کے ہاتھ میں ہیں۔
برادر برینہم کی وضاحت
برادر برینہم فرماتے ہیں کہ جب یسوع نے یہ الفاظ کہے تو اُس نے کلیسیا کو یقین دلایا کہ اب موت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
وہ کنجیاں جنہیں آدم نے گناہ کے سبب کھو دیا تھا، یسوع نے اپنی موت اور قیامت کے ذریعے واپس لے لیں۔
اسی لیے اب کلیسیا کے پاس نجات اور فتح کی ضمانت ہے، کیونکہ اُس کا دُلہا زندہ ہے۔

باب1آیات 19–20🔹
پَس جو باتیں تُو نے دیکھِیں اور جو ہیں اور جو اِن کے بعد ہونے والی ہیں اُن سب کو لِکھ لے۔
یعنی اُن سات سِتاروں کا بھید جِنہِیں تُو نے میرے دہنے ہاتھ میں دیکھا تھا اور اُن سونے کے ساتھ چراغدانوں کا۔ وہ سات سِتارے تو سات کلِیسیاؤں کے فرِشتے ہیں اور وہ سات چراغدان سات کلِیسیائیں ہیں۔

یہاں مکاشفہ کی تقسیم دی گئی
جو یوحنا نے دیکھا (باب 1)۔
جو اُس وقت ہو رہا تھا (باب 2–3: کلیسیا کے ادوار)۔
جو بعد میں ہوگا (باب 4 سے آخر تک: مستقبل کے واقعات)۔
سات ستارے سات پیغامبر ہیں، اور سات چراغدان سات کلیسیائیں ہیں۔ برادر برینہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ پیغامبر ہیں: پولس (افسس)، ایرینیئس (سُمرنہ)، مارتن (پرگمنس)، کولمبا (تھواتیرا)، لوتھر (سردیس)، ویزلی (فلادیلفیہ)، اور آخری زمانے میں برادر ولیم برینہم (لودہکیہ)۔

تفسیر — باب 2: کلیسیائیں (افسس تا تھواتیرا)

کلیسیا افسس (آیات 1–7)🔹

تعارف🔹
🔹دور: 53–170 عیسوی🔹
پی🔹امبر: پولس رسول
شہر: افسس (تجارتی و مذہبی مرکز، دیوی ڈایانا/آرٹمس کا مندر — اعمال 19باب27–28)🔹
یہ پہلی کلیسیا رسولی دور (53–170 عیسوی) کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر پولس رسول تھا۔ افسس نہ صرف ایک تجارتی مرکز بلکہ ایک مذہبی شہر بھی تھا جہاں دیوی ڈایانا (آرٹمس) کا بڑا مندر تھا (اعمال 19باب27–28)۔ پولس نے یہاں طویل عرصہ تبلیغ کی اور ایک مضبوط کلیسیا قائم کی۔ اس دور کی خصوصیت جوش، محبت اور روحانی توانائی تھی، لیکن رفتہ رفتہ کلیسیا میں سرد مہری آ گئی اور "پہلی محبت" کمزور پڑ گئی۔
مکاشفہ 2:2 — 🔹
مَیں تیرے کام اور تیری مُشقّت اور تیرا صبر تو جانتا ہُوں اور یہ بھی کہ تُو بدوں کو دیکھ نہِیں سکتا اور جو اپنے آپ کو رَسُول کہتے ہیں اور ہیں نہِیں تُو نے اُن کو آزما کر جھُوٹا پایا۔
اعمال 20باب29–30 —🔹
پولس نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ "بھیڑیے تم میں داخل ہوں گے۔"

آیات 1–3 باب2(کلیسیا افسس)🔹
یسوع کی پہچان
یوحنا نے دیکھا کہ یسوع اپنے دائیں ہاتھ میں سات ستارے تھامے ہوئے ہے (جو کلیسیاؤں کے پیغامبر یا خادم ہیں) اور وہ چراغدانوں کے درمیان چل رہا ہے (جو سات کلیسیاؤں کی علامت ہیں)۔
یہ منظر ظاہر کرتا ہے کہ یسوع اپنے پیغامبروں پر اختیار رکھتا ہے؛ وہ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مسیح کے ہاتھ میں ہیں۔
ساتھ ہی، چراغدانوں کے درمیان چلنے کا مطلب یہ ہے کہ مسیح اپنی کلیسیا کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ اُن کے بیچ میں موجود اور ہر حالت میں اُن کا نگہبان ہے (متی 28:20 — "دیکھو، میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں").

افسس کی تعریف🔹
یسوع کہتا ہے:
"میں تیرے اعمال، تیری محنت اور تیرا صبر جانتا ہوں۔" (مکاشفہ 2:2)
کلیسیا اپنی خدمت میں سرگرم تھی — وہ محنتی اور وقف شُدہ لوگ تھے۔
وہ مشکلات کے باوجود صابر اور ثابت قدم رہے۔
اُن کے پاس روحانی تمیز تھی: انہوں نے جھوٹے رسولوں کو آزمایا اور اُنہیں جھوٹا پایا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کلام میں مضبوط تھے اور ہر تعلیم کو کلام کے معیار سے پرکھتے تھے (1یوحنا 4:1 — اَے عِزیزو! ہر ایک رُوح کا یقِین نہ کرو بلکہ رُوحوں کو آماؤ کہ وہ خُدا کی طرف سے ہیں یا نہِیں کِیُونکہ بہُت سے جھُوٹے نبی دُنیا میں نِکل کھڑے ہُوئے ہیں۔.

مزید وضاحت:🔹
یہ تعریف بتاتی ہے کہ کلیسیا افسس نے ابتدا میں بڑی روحانی بیداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ تعلیم پر مضبوطی سے کھڑے تھے اور کسی جھوٹے نبی یا خادم کو قبول نہ کرتے تھے۔ یہ وہی بات ہے جو پولس نے بھی اُنہیں سکھائی تھی (اعمال 20باب29–31) کہ "بھیڑیے" آئیں گے مگر تم چوکس رہو۔ افسس کلیسیا نے واقعی کلامی بنیاد پر پرکھ کر دکھایا کہ وہ جھوٹ کو برداشت نہیں کر سکتے۔

باب2آیت 4🔹
مگر مُجھ کو تُجھ سے یہ شِکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبّت چھوڑ دی۔

یہ بڑی کمزوری تھی۔ وہ تعلیم پر قائم تھے مگر محبت اور جوش کھو بیٹھے۔ عبادت رسموں میں بدل گئی، دعا مشینی انداز اختیار کر گئی، خدمت محض روایتی ڈیوٹی بن گئی۔
برادر برینہم کہتے ہیں: "چراغ اگر تیل کے بغیر ہو تو صرف بتی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح محبت (روح القدس) کے بغیر ایمان بے جان ہو جاتا ہے۔
:یرمیاہ 2:2 —🔹
خداوند یو ں فرماتا ہے کہ میں تیری جوانی کی اُلفت اور تیرے بیاہ کی محبت کو یاد کرتا ہوں کہ تو بیابان یعنی بنجر زمین میں میرے پیچھے پیچھے چلی۔
24:12 🔹
اور بےدِینی کے بڑھ جانے سے بہُتیروں کی محبّت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔

باب2 آیات 5–7 (کلیسیا افسس)🔹
پَس خیال کر کہ تُو کہاں سے گِرا ہے اور تَوبہ کر کے پہلے کی طرح کام کر اور اگر تُو تَوبہ نہ کرے گا تو مَیں تیرے پاس آ کر تیرے چراغدان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دُوں گا۔ البتّہ تُجھ میں یہ بات تو ہے کہ تُو نِیکُلَیّوں کے کاموں سے نفرت رکھتا ہے جِن سے مَیں بھی نفرت رکھتا ہُوں۔ جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔ جو غالِب آئے مَیں اُسے اُس زِندگی کے دَرخت میں سے جو خُدا کے فِردَوس میں ہے پھَل کھانے کو دُوں گا۔

وضاحت🔹
یسوع افسس کلیسیا کو توبہ کی دعوت دیتا ہے: "خیال کر کہاں سے گرا ہے" یعنی اپنی پہلی محبت کو یاد کرو اور واپس اُسی جوش و لگن کی طرف لوٹ آؤ۔
اگر وہ توبہ نہ کرتے تو "چراغدان" ہٹا لیا جاتا، یعنی کلیسیا اپنی روشنی اور گواہی کھو دیتی۔
افسس کی تعریف یہ بھی تھی کہ وہ "نِقلائیوں" کے کاموں سے نفرت کرتے تھے۔ نِقلائی روح دراصل کلیسیا میں انسانی اختیار لانے کی کوشش تھی، جس سے مسیح کے روحانی اختیار کی توہین ہوتی ہے۔ خدا بھی اس سے نفرت کرتا ہے۔
غالب آنے والے کو وعدہ دیا گیا کہ وہ "درختِ حیات" سے کھائے گا، جو خدا کے فردوس میں ہے۔ یہ مسیح کی ابدی زندگی اور اُس کی حضوری میں شریک ہونے کی علامت ہے (پیدایش 2:9؛ مکاشفہ 22:2)۔

سبق🔹
کلیسیا کے لیے صرف تعلیم کافی نہیں بلکہ محبت بھی ضروری ہے۔ نیک نیتی کے ساتھ کلام پر قائم رہنا اور باطل روحوں کو رد کرنا لازمی ہے۔ غالب آنے والوں کے لیے انعام "مسیح کی ابدی زندگی" ہے۔

کلیسیا سُمرنہ (آیات 8–11)🔹

تعارف🔹
یہ دوسری کلیسیا (170–312 عیسوی) سخت ایذا رسانی کے دور کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر ایرینیئس تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رومی حکمرانوں نے ایمانداروں کو اذیت ناک سزائیں دیں: زندہ جلایا گیا، شیر کے آگے ڈالا گیا، قید خانوں میں سڑنے دیا گیا۔ لیکن ان سب مظالم کے باوجود کلیسیا ایمان پر قائم رہی۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یہی وہ دور ہے جہاں کلیسیا نے اپنے خون سے گواہی دی اور اپنے ایمان کی مہر شہادت کے ساتھ ثبت کی۔

باب2آیت 8🔹
اور سمُرنہ کی کلِیسیا کے فرِشتہ کو یہ لِکھ کہ جو اوّل و آخِر ہے اور جو مر گیا تھا اور زِندہ ہُؤا وہ یہ فرماتا ہے کہ۔
یسوع اپنے آپ کو یوں ظاہر کرتا ہے: " اوّل و آخِر ، جو مر گیا اور زندہ ہوا۔" یہ بیان اس کلیسیا کے لیے بڑی تسلی تھا کیونکہ وہ روز موت کا سامنا کرتے تھے۔ یسوع کہتا ہے کہ میں موت پر غالب آیا ہوں، لہٰذا تم بھی مجھ میں غالب آؤ گے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مسیحی ایمان موت پر نہیں رکتا بلکہ قیامت اور ابدی زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

باب2آیت 9🔹
مَیں تیری مُصِیبت اور غرِیبی کو جانتا ہُوں (مگر تُو دَولتمند ہے)۔" دنیا کے لحاظ سے یہ کلیسیا غریب تھی، اُن کے پاس دولت یا سہولت نہیں تھی۔ مگر خدا کے نزدیک وہ سب سے زیادہ دولت مند تھے کیونکہ اُن کے پاس ایمان تھا۔ مزید کہا گیا: "میں اُن کی بدگوئی کو بھی جانتا ہوں جو یہودی کہلاتے ہیں مگر ہیں نہیں بلکہ شیطان کی جماعت ہیں۔" یہاں وہ جھوٹے یہودی مراد ہیں جو مسیح کو رد کر کے کلیسیا کے مخالف ہو گئے۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ روحانی سچائی کا دشمن ہمیشہ اپنے آپ کو مذہبی لبادے میں چھپاتا ہے۔

باب2آیات 10–11🔹
یسوع فرماتا ہے: "جو دُکھ تُجھے سہنے ہوں گے اُن سے خَوف نہ کر۔دیکھو اِبلِیس تُم میں سے بعض کو قَید میں ڈالنے کو ہے تاکہ تُمہاری آزمایش ہو اور دس دِن تک مُصِیبت اُٹھاؤ گے۔ جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تُجھے زِندگی کا تاج دُوں گا۔
"یہاں "دس دن" علامتی طور پر دس بڑے ظلم کے ادوار کی طرف اشارہ ہے جو رومی شہنشاہوں کے دور میں کلیسیا پر گزرے۔ پیغام یہ ہے کہ ظلم وقتی ہے مگر انعام ابدی ہے۔ "زندگی کا تاج" شہادت کے بدلے خدا کی طرف سے دائمی جلال ہے۔آیت 11 میں کہا گیا: "جس کے کان ہوں وہ سنے… جو غالب آئے اُسے دوسری موت کا نقصان نہ ہوگا۔" دوسری موت آتش کی جھیل ہے (مکاشفہ 20:14)۔ مگر جو ایمان میں قائم رہا، اُس پر دوسری موت کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ یہ سب سے بڑی فتح ہے۔

سبق (سُمرنہ)🔹
حقیقی دولت دنیاوی نہیں بلکہ روحانی ہے۔
ایمان محض وقتی جذبات نہیں بلکہ موت تک وفاداری چاہتا ہے۔
ظلم کلیسیا کو مٹا نہیں سکتا بلکہ مزید مضبوط بناتا ہے۔
غالب آنے والے کے لیے انعام صرف زمین پر نہیں بلکہ ابدیت میں ہے۔

کلیسیا پرگمن باب2(آیات 12–17)🔹

تعارف🔹
یہ تیسری کلیسیا ہے جو 312 عیسوی سے 606 عیسوی تک کے دور کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر مارتن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قسطنطین اعظم کے بعد کلیسیا اور ریاست کا ملاپ ہوا۔ بظاہر امن، عزت اور طاقت ملی، مگر اندرونی طور پر بگاڑ اور بدعت نے جگہ بنا لی۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ یہ وہ موڑ تھا جہاں کلیسیا نے دنیا کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اپنی روحانی پاکیزگی کھونا شروع کیا۔

باب2آیات 12–13🔹
یسوع کو یہاں "دو دھاری تلوار والا" دکھایا گیا۔ یہ کلامِ خدا کی پرکھ اور عدالت کی علامت ہے (عبرانیوں 4:12)۔ کلیسیا کی تعریف کی گئی کہ وہ سخت حالات میں بھی ایمان پر قائم رہی۔ یہاں "انتیپاس" کا ذکر ہے جو وفادار رہتے ہوئے شہید ہوا۔ یہ نام اس بات کی علامت ہے کہ کلیسیا کے کچھ ایماندار دنیا اور شیطان کے تخت کے قریب رہنے کے باوجود بھی وفادار رہے۔ لیکن ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کا ماحول "جہاں شیطان کا تخت ہے" کہلایا — یعنی رومی اقتدار اور بت پرستی کا مرکز۔

باب2آیات 14–15🔹
کلیسیا پر الزام تھا کہ وہ "بلعام کی تعلیم" اور "نِقلائیوں کی تعلیم" کو برداشت کرتے ہیں۔ بلعام کی تعلیم: بلعام نے اسرائیل کو بت پرستی اور زنا میں مبتلا کیا (گنتی 25:1–3؛ 31:16)۔
اسی طرح پرگمن کے دور میں کلیسیا نے دنیاوی طاقت، دولت اور بت پرستانہ رسومات کو قبول کیا۔ چرچ اور ریاست کا ملاپ اصل میں روحانی زنا تھا ۔یعنی کلیسیا کا غیر سے جُڑ جانا۔

نِقلائیوں کی تعلیم:🔹
اس تعلیم نے کلیسیا میں انسانی تنظیم اور روحانی طبقاتی نظام کو فروغ دیا۔ لیڈروں نے عام ایمانداروں پر اختیار جمانا شروع کیا، اور آہستہ آہستہ چرچ ایک رسمی ادارہ بنتا گیا۔ برادر برینہم کے مطابق یہی وہ روح ہے جو بعد میں پاپائیت ( میں مکمل ہوئی۔

باب2آیات 16–17🔹
یسوع نے خبردار کیا: پَس تَوبہ کر۔ نہِیں تو مَیں تیرے پاس جلد آ کر اپنے مُنہ کی تلوار سے اُن کے ساتھ لڑُوں گا۔" اس کا مطلب ہے کہ کلامِ خدا ہی فیصلہ کن ہتھیار ہے جو بدعت اور جھوٹے نظام کے خلاف لڑے گا۔

غالب آنے والے کے لیے دو وعدے ہیں🔹
پوشِیدہ من :●
یہ خدا کی خاص اور روحانی خوراک ہے، وہ مکاشفہ اور حضوری جو صرف غالب آنے والوں کو ملتی ہے۔ یہ من خدا کے رازوں میں سے ہے جو دلہن کلیسیا پر ظاہر ہوتے ہیں۔
سفید پتھر اور نیا نام:●
پرانے زمانے میں سفید پتھر بریت (معافی) اور قبولیت کی علامت تھا۔ یہاں غالب آنے والے کو نیا نام دیا جائے گا — ایک ایسا راز جو صرف خدا اور غالب آنے والے کو معلوم ہوگا۔ یہ ذاتی قربت اور مکاشفہ کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔

سبق (پرگمن)🔹
کلیسیا اور دنیا کے ملاپ سے ایمان کمزور اور آلودہ ہوتا ہے۔
بلعامی تعلیم اور نِقلائی نظام سے بچنا لازمی ہے، کیونکہ یہ روحانی زنا اور غلامی لاتا ہے۔
کلامِ خدا ہی سچا ہتھیار ہے جو بدعت اور جھوٹ پر فتح دلاتا ہے۔
غالب آنے والے کو نہ صرف مکاشفہ ملے گا بلکہ مسیح کے ساتھ ایک گہرا ذاتی تعلق بھی قائم ہوگا۔

کلیسیا تھواتیرا (آیات 18–29)🔹

تعارف🔹
یہ چوتھی کلیسیا ہے جو 606 عیسوی سے 1520 عیسوی تک کے طویل عرصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر کولمبا تھا۔ یہ دور سب سے زیادہ اندھیرے اور جبر کا دور کہلاتا ہے (ڈارک ایج)۔ رومن کیتھولک نظام نے کلیسیا پر قبضہ کر لیا اور "ایزابل کی روح" حاوی ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب بائبل عام لوگوں سے چھینی گئی، انسانوں کے قوانین خدا کے کلام پر غالب آ گئے، اور ایمانداروں کو خوفناک مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ برادر برینہم کے مطابق یہی دور وہ ہے جب کلیسیا نے اپنے سب سے طویل امتحان کا سامنا کیا۔

باب2آیت 18🔹
یسوع نے اپنی پہچان اس طرح دی: "جس کی آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند اور پاؤں پیتل کی مانند ہیں۔" آنکھیں آگ کی مانند ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سب کچھ پرکھنے والا ہے — کوئی چیز اُس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ پاؤں پیتل کی مانند ہونے کا مطلب ہے کہ وہ کامل عدالت کرنے والا ہے۔ یہ بیان تھواتیرا کلیسیا کو خبردار کرتا ہے کہ مسیح اندھیروں میں بھی سب دیکھ رہا ہے اور اُس کی عدالت یقینی ہے۔

باب2آیات 19–20🔹
یسوع نے اُن کے اعمال، محبت، خدمت، ایمان اور صبر کو سراہا، اور کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ اعمال کر رہے ہیں۔ مگر ایک بڑی کمزوری پر ملامت کی گئی: وہ "ایزبل" کو برداشت کرتے ہیں۔ پرانے عہد کی ایزبل وہ ملکہ تھی جس نے اسرائیل کو بت پرستی اور زنا میں ڈالا (1 سلاطین 16–21)۔ اسی طرح اس دور میں کلیسیا نے ایک جھوٹے نظام کو قبول کیا — رومن کیتھولک چرچ — جس نے لوگوں کو روحانی زنا (دنیا سے ملاپ) اور بت پرستی میں مبتلا کیا۔ مریم پرستی، مقدسین کی عبادت، مجسموں اور تصاویر کے سامنے جھکنا اسی ایزبل کی روح کا نتیجہ تھا۔ برادر برینہم کہتے ہیں کہ یہ دور کلیسیا کے لیے سب سے زیادہ تاریک تھا کیونکہ انسانی اختیار نے خدا کے کلام کو ڈھانپ لیا۔

باب2آیات 21–23🔹
یسوع کہتا ہے کہ میں نے اُسے (ایزبل کو) توبہ کا وقت دیا مگر اُس نے انکار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عدالت کے بستر پر ڈالی گئی۔ اُس کے پیروکار بھی سخت عذاب میں ڈالے جائیں گے، اور اُس کے بچے (یعنی اُس کے نظام کی پیداوار) موت کے گھاٹ اتارے جائیں گے۔ تاریخ میں یہ پورا ہوا: لاکھوں ایمانداروں کو انکوئزیشن(مذہبی جبر کی عدالت) اور صلیبی جنگوں کے ذریعے قتل کیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا بدعت اور جھوٹے نظام کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ یسوع فرماتا ہے: " سب کلِیسیاؤں کو معلُوم ہوگا کہ گُردوں اور دِلوں کا چانچنے والا مَیں ہی ہُوں۔" یہ اُس کی الوہیت اور عدالت کی مکمل تصدیق ہے۔

باب2آیات 24–25🔹
وفادار باقی ماندہ کو کہا گیا: " البتّہ جو تُمہارے پاس ہے میرے آنے تک اُس کو تھامے رہو۔" یہ ظاہر کرتا ہے کہ اندھیروں کے باوجود ہمیشہ ایک چھوٹا سا وفادار گروہ (فاتحین) رہا ہے جس نے خدا کے کلام پر قائم رہنے کی گواہی دی۔ جیسے والڈینس اور دیگر گروہ جنہوں نے کلام کی روشنی کو بچا کر رکھا۔

باب2آیات 26–29🔹
غالب آنے والوں کے لیے وعدے ہیں:
وہ قوموں پر اختیار پائیں گے اور لوہے کے عصا سے حکومت کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایماندار مسیح کے ساتھ اُس کی بادشاہی میں شریک ہوں گے۔
انہیں "صبح کا ستارہ" دیا جائے گا۔ بائبل میں صبح کا ستارہ خود یسوع مسیح ہے (مکاشفہ 22:16)۔ یعنی غالب آنے والوں کو مسیح کی حضوری اور مکاشفہ کی خاص قربت ملے گی۔آخر میں پھر وہی دعوت ہے: جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے

سبق (باب 2)🔹
افسس: تعلیم مضبوط مگر محبت سرد پڑ گئی۔ سبق: محبت اور سچائی دونوں ضروری ہیں۔
سُمرنہ: غربت اور ظلم کے باوجود روحانی دولت مند۔ سبق: موت تک وفاداری ضروری ہے۔
پرگمن: کلیسیا اور دنیا کا ملاپ خطرناک۔ سبق: بدعت اور نِقلائی تعلیم سے بچنا ہے۔
تھواتیرا: ایزابل کی روح نے کلیسیا کو آلودہ کیا۔ سبق: بدعت کو برداشت نہ کرو، وفادار رہو۔

تفسیر — باب 3: کلیسیائیں (سردیس تا لودیکیہ)

کلیسیا سردِیس (آیات 1–6)🔹

اور سردِیس کی کلِیسیا کے فرِشتہ کو یہ لِکھ کہ جِس کے پاس خُدا کی سات رُوحیں ہیں اور سات سِتارے ہیں وہ یہ فرماتا ہے کہ مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں کہ تُو زِندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ۔ 2 جاگتا رہ اور اُن چِیزوں کو جو باقی ہیں اور جو مِٹنے کو تھِیں مضبُوط کر کِیُونکہ مَیں نے تیرے کِسی کام کو اپنے خُدا کے نزدِیک پُورا نہِیں پایا۔
3 پَس یاد کر کہ تُو نے کِس طرح تعلِیم پائی اور سُنی تھی اور اُس پر قائِم رہ اور تَوبہ کر اور اگر تُو جاگتا نہ رہے گا تو مَیں چور کی طرح آ جاؤں گا اور تُجھے ہرگِز معلُوم نہ ہوگا کہ کِس وقت تُجھ پر آ پڑُوں گا۔
4 البتّہ سردِیس میں تیرے ہاں تھوڑے سے اَیسے شَخص ہیں جِنہوں نے اپنی پوشاک آلُودہ نہِیں کی۔ وہ سفید پوشاک پہنے ہُوئے میرے ساتھ سَیر کریں گے کِیُونکہ وہ اِس لائِق ہیں۔
5 جو غالِب آئے اُسے اِسی طرح سفید پوشاک پہنائی جائے گی اور مَیں اُس کا نام کِتابِ حیات سے ہرگِز نہ کاٹُوں گا بلکہ اپنے باپ اور اُس کے فرِشتوں کے سامنے اُس کے نام کا اِقرار کرُوں گا۔
6 جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔

تعارف🔹

یہ پانچویں کلیسیا ہے جو 1520 عیسوی سے 1750 عیسوی تک کے دور کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر مارٹن لوتھر تھا۔ یہ اصلاحِ مذہب (ریفارمر) کے بعد کا دور تھا۔ اس زمانے میں خدا نے کلیسیا کو ایک عظیم بیداری بخشی جس میں بائبل کو عوام کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ایمان کے بنیادی اصول — "صرف ایمان سے نجات" — دوبارہ دریافت ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب انسانوں کی بجائے کلامِ مقدس کو معیار بنایا گیا اور لوگوں کو بائبل پڑھنے کی آزادی ملی۔
مگر زیادہ دیر نہ گزری کہ اصلاح کی یہ آگ سرد پڑنے لگی۔ کلیسیا پھر سے تنظیمیّت، رسمیّت اور بے روح عبادات میں ڈوب گئی۔ ایمان محض نظریہ بن گیا، زندگی کی تبدیلی کمزور ہو گئی۔ برادر برینہم کے مطابق یہی وہ دور تھا جہاں اصلاح رک گئی اور کلیسیا "نام کے اعتبار سے زندہ لیکن حقیقت میں مردہ" کہلائی۔

باب3آیات 1–2🔹

اور سردِیس کی کلِیسیا کے فرِشتہ کو یہ لِکھ کہ جِس کے پاس خُدا کی سات رُوحیں ہیں اور سات سِتارے ہیں وہ یہ فرماتا ہے کہ مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں کہ تُو زِندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ۔
2 جاگتا رہ اور اُن چِیزوں کو جو باقی ہیں اور جو مِٹنے کو تھِیں مضبُوط کر کِیُونکہ مَیں نے تیرے کِسی کام کو اپنے خُدا کے نزدِیک پُورا نہِیں پایا۔

یسوع اپنے آپ کو وہ کہتا ہے جس کے پاس خدا کی سات روحیں اور سات ستارے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس کے پاس کلیسیا کی مکمل نگرانی اور اختیار ہے۔ "سات روحیں" سے مراد روح القدس کی مکمل کارگزاری ہے جو سات جہتوں یا کلیسیائی ادوار میں ظاہر ہوئی، اور "سات ستارے" سات قاصد یا پیامبر ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کلیسیا کا حقیقی نگہبان خود مسیح ہے۔
کلیسیا کو کہا گیا: "تیرے اعمال مجھے معلوم ہیں؛ تُو زِندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ۔" یعنی اصلاح کے بعد اُنہوں نے بائبل اور ایمان کی بات تو کی، لیکن اندر سے روحانی زندگی کمزور تھی۔ ظاہری طور پر وہ زندہ دکھائی دیتے تھے مگر اصل میں روحانی طور پر بے جان ہو گئے۔ یہ وہی حالت ہے جب مذہب محض نام رہ جائے مگر قوت نہ رہے (2 تیمتھیس 3:5)۔
یسوع نے انہیں جگانے اور باقی بچی ہوئی چیزوں کو مضبوط کرنے کا حکم دیا۔ جیسے چراغ کی بتی بجھنے کو ہو اور اُسے فوراً درست کیا جائے تاکہ روشنی باقی رہے۔ یہ پیغام کلیسیا کو بیداری اور تجدید کی طرف بلاتا ہے۔

باب3-3آیت🔹

پَس یاد کر کہ تُو نے کِس طرح تعلِیم پائی اور سُنی تھی اور اُس پر قائِم رہ اور تَوبہ کر اور اگر تُو جاگتا نہ رہے گا تو مَیں چور کی طرح آ جاؤں گا اور تُجھے ہرگِز معلُوم نہ ہوگا کہ کِس وقت تُجھ پر آ پڑُوں گا۔
یاد کر کہ تُو نے کِس طرح تعلِیم پائی اور سُنی تھی؛ اور اُس پر قائم رہ اور توبہ کر۔" اس آیت میں تین عملی حکم ہیں: (1) یاد کرنا — وہ لمحے یاد کرو جب ایمان تازہ تھا، جب کلام کے لیے بھوک اور دعا کے لیے پیاس تھی۔ (2) قائم رہنا — جو کلام ملا اُس پر مضبوطی سے ڈٹے رہو۔ (3) توبہ کرنا — دل کی سمت کو بدل کر رسم پرستی سے باہر آؤ۔ ورنہ مسیح کہتا ہے کہ وہ اچانک چور کی مانند آ جائے گا، یعنی غیر متوقع طور پر عدالت کرے گا۔ یہ آیت کلیسیا کو روحانی بیداری، توبہ اور فوری اقدام کی تاکید کرتی ہے۔

باب3آیات 4–6🔹

4 البتّہ سردِیس میں تیرے ہاں تھوڑے سے اَیسے شَخص ہیں جِنہوں نے اپنی پوشاک آلُودہ نہِیں کی۔ وہ سفید پوشاک پہنے ہُوئے میرے ساتھ سَیر کریں گے کِیُونکہ وہ اِس لائِق ہیں۔
5 جو غالِب آئے اُسے اِسی طرح سفید پوشاک پہنائی جائے گی اور مَیں اُس کا نام کِتابِ حیات سے ہرگِز نہ کاٹُوں گا بلکہ اپنے باپ اور اُس کے فرِشتوں کے سامنے اُس کے نام کا اِقرار کرُوں گا۔
6 جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔
زندہ لیکن حقیقت میں مردہ" کہلائی۔
یسوع تسلیم کرتا ہے کہ سردیس میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے کپڑے آلودہ نہیں کیے۔ یہ اقلیت ہمیشہ ہر دور میں موجود رہی ہے — وہ لوگ جو رسم یا دنیاوی آلودگی میں شامل نہیں ہوئے بلکہ پاکیزگی میں قائم رہے۔ ان کے لیے وعدہ ہے کہ وہ سفید لباس پہنیں گے، جو فتح اور پاکیزگی کی علامت ہے۔
مزید کہا گیا کہ غالب آنے والے کے نام کِتابِ حیات میں درج رہیں گے۔ یہ سب سے بڑا انعام ہے کہ خدا کے حضور ہمیشہ کے لیے قبولیت پانا۔ یسوع کہتا ہے: "بلکہ اپنے باپ اور اُس کے فرِشتوں کے سامنے اُس کے نام کا اِقرار کرُوں گا۔" یعنی جو زمین پر وفادار رہے، آسمان پر یسوع اُس کی گواہی دے گا۔ یہ تصور نہایت شاندار اور تسلی بخش ہے کہ خود مسیح اپنے ایماندار کا تعارف کروائے گا۔

سبق (سردیس)🔹
ایمان صرف نام یا رسم نہیں بلکہ زندہ تعلق ہے جس میں کلام اور محبت دونوں شامل ہیں۔
خدا چاہتا ہے کہ ہم بیدار رہیں، یاد کریں اور اپنی روحانی زندگی کو تازہ رکھیں۔
غالب آنے والا نہ صرف سفید لباس پہنے گا بلکہ اُس کا نام ہمیشہ کے لیے کِتابِ حیات میں ثبت ہوگا اور آسمان پر اُس کی عزت کی جائے گی۔
ایمان صرف نام یا رسم نہیں بلکہ زندہ تعلق ہے۔
خدا چاہتا ہے کہ ہم بیدار رہیں اور اپنی روحانی زندگی کو تازہ رکھیں۔
غالب آنے والے کو ابدی عزت اور قبولیت ملے گی۔

کلیسیا فلادیلفیہ (آیات 7–13)🔹

تعارف🔹

یہ چھٹی کلیسیا ہے جو 1750 سے تقریباً 1906 عیسوی تک کے دور کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا پیامبر جان ویزلی تھا۔ یہ بھائی چارے، محبت اور مشنری تحریکوں کا زمانہ تھا۔ اسی دور میں خدا نے کلام کا ایک نیا باب کھولا اور انجیل دنیا کے کونے کونے میں پھیلائی گئی۔ مشنری تحریکوں نے بائبل کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا اور لاکھوں لوگ نجات کے پیغام سے روشناس ہوئے۔ اس دور میں کلیسیا کو خاص طور پر "کھلے دروازے" کا تجربہ ہوا — خدمت، تبلیغ اور خدا کے فضل کی وسعت۔

باب3آیات 7–9🔹

اور فِلدِلفیہ کی کلِیسیا کے فرِشتہ کو یہ لِکھ کہ جو قُدُّوس اور برحق ہے اور داؤد کی کُنجی رکھتا ہے جِس کے کھولے ہُوئے کو کوئی بند نہِیں کرتا اور بند کِئے ہُوئے کو کوئی کھولتا نہِیں وہ یہ فرماتا ہے کہ۔
8 مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں (دیکھ مَیں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ کوئی اُسے بند نہِیں کر سکتا) کہ تُجھ میں تھوڑا سا زور ہے اور تُو نے میرے کلام پر عمل کِیا ہے اور میرے نام کا اِنکار نہِیں کِیا۔
9 دیکھ مَیں شَیطان کے اُن جماعت والوں کو تیرے قابُو میں کر دُوں گا جو اپنے آپ کو یہُودی کہتے ہیں اور ہیں نہِیں بلکہ جھُوٹ بولتے ہیں۔ دیکھ مَیں اَیسا کرُوں گا کہ وہ آ کر تیرے پاؤں میں سِجدہ کریں گے اور جانیں گے کہ مُجھے تُجھ سے محبّت ہے۔

یسوع اپنے آپ کو وہ کہتا ہے جو قدوس اور برحق ہے، جس کے پاس داؤد کی کنجی ہے، جو کھولتا ہے تو کوئی بند نہیں کر سکتا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی اختیار اور بادشاہی کی کنجی صرف مسیح کے ہاتھ میں ہے۔ "قدوس" اُس کی پاکیزگی اور "برحق" اُس کی وفاداری اور سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ داؤد کی کنجی پرانے عہد میں بادشاہی اور اختیار کی علامت تھی (یسعیا 22:22)
اور یہ کنجی اب مسیح کے پاس ہے، جو دلہن کلیسیا کے لیے دروازے کھولتا اور بند کرتا ہے۔

کلیسیا سے کہا گیا: "دیکھ مَیں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ کوئی اُسے بند نہِیں کر سکتا" یہ دروازہ مشنری خدمت، روحانی برکت اور انجیل کی عالمی تبلیغ کی علامت ہے۔
فلادیلفیہ کے زمانے میں خدا نے بڑے پیمانے پر بائبل کے تراجم، مشنری تحریکوں اور روحانی بیداری کے وسیع مواقع دیے۔ اس آیت میں کلیسیا کی کمزوری بھی تسلیم کی گئی: "تُجھ میں تھوڑا سا زور ہے اور تُو نے میرے کلام پر عمل کِیا ہے اور میرے نام کا اِنکار نہِیں کِیا۔"
یہ عظیم سبق ہے کہ قوت یا طاقت نہیں بلکہ وفاداری خدا کے نزدیک قیمتی ہے۔
یسوع وعدہ کرتا ہے کہ جھوٹے یہودی (شیطان کی جماعت) آ کر تسلیم کریں گے کہ وہ خدا کی محبوب ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ حقیقی کلیسیا کو آخرکار عزت اور شناخت ملے گی۔
مزید کہا گیا کہ جو کلیسیا صبر کے کلام پر قائم رہی، اُس کو "آزمائش کے وقت" سے بچایا جائے گا جو پوری دنیا پر آنے والا ہے۔ یہ آزمائش عظیم مصیبت کا زمانہ ہے۔ برادر برینہم کے مطابق یہ دلی تسلی ہے کہ دلہن کلیسیا کو عظیم مصیبت سے پہلے اُٹھا لیا جائے گا ۔

10 چُونکہ تُو نے میرے صبر کے کلام پر عمل کِیا ہے اِس لِئے مَیں بھی آزمایش کے اُس وقت تیری حِفاظت کرُوں گا جو زمِین کے رہنے والوں کے آزمانے کے لِئے تمام دُنیا پر آنے والا ہے۔
کلیسیا فلادیلفیہ نے مسیح کے کلام پر صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل کیا، اس لیے یسوع وعدہ کرتا ہے کہ وہ اُنہیں اُس "عالمگیر آزمائش" سے بچائے گا جو پوری دنیا پر آنے والی ہے۔
یہ آزمائش مستقبل کی بڑی ایذا رسانی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو دنیا کے سب رہنے والوں کو آزمانے کے لیے آئے گی۔
خدا اپنے وفادار لوگوں کو یا تو اس آزمائش سے بچائے گا یا اُنہیں اس میں سے کامیابی کے ساتھ نکالے گا۔

باب3آیات 11–13🔹

11 مَیں جلد آنے والا ہُوں۔ جو کُچھ تیرے پاس ہے اُسے تھامے رہ تاکہ کوئی تیرا تاج نہ چھِین لے۔
یہ آیت مسیح کی جلدی آمد پر زور دیتی ہے (مکاشفہ 22:7, 12, 20)۔
"جو کچھ تیرے پاس ہے" → ایمان، صبر، وفاداری اور کلام۔ اس کا مطلب ہے کہ ایماندار کو اپنے عطیہ شدہ ایمان اور خدمت پر قائم رہنا چاہیے۔
تاج" → نجات کا انعام اور ابدی زندگی کی عزت۔ تاج کوئی دوسرا چھین نہیں سکتا لیکن اگر ایماندار ڈھیلا پڑ جائے تو وہ خود اپنا حصہ کھو سکتا ہے (2تیمتھیس 4:8؛ مکاشفہ 2:10)۔

باب3آیت 12🔹
12 جو غالِب آئے مَیں اُسے اپنے خُدا کے مَقدِس میں ایک سُتُون بناؤں گا۔ وہ پھِر کبھی باہِر نہ نِکلے گا اور مَیں اپنے خُدا کا نام اور اپنے خُدا کے شہر یعنی اُس نئے یروشلِیم کا نام جو میرے خُدا کے پاس سے آسمان سے اُترنے والا ہے اور اپنا نیا نام اُس پر لِکھُوں گا۔

ستون → طاقت، پائیداری اور مستقل موجودگی کی علامت (گلتیوں 2:9 میں پطرس، یعقوب اور یوحنا کو "ستون" کہا گیا)۔
کبھی باہر نہ نکلے گا" → ہمیشہ کے لیے خدا کی حضوری میں۔ یعنی نہ کوئی جدائی، نہ کوئی اخراج۔
خدا کا نام" → ملکیت اور شناخت (2کورن 6:16؛ مکاشفہ 14:1)۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ غالب آنے والا ہمیشہ کے لیے خدا کا ہے۔
نیا یروشلم" → دلہن شہر جو آسمان سے اُترے گا (مکاشفہ 21:2)۔ اس کا نام لکھا جانا ابدی تعلق اور اُس شہر میں میراث پانے کی علامت ہے۔
میرا نیا نام" → یسوع کے مکاشفہ کا ایک اور پہلو، جو صرف غالب آنے والوں پر ظاہر کیا جائے گا۔ یہ اُس گہری قربت اور راز کی علامت ہے جو دلہن کلیسیا کو ملے گا۔

باب3 آیت 13🔹
13 جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔
ہر کلیسیا کو یہی دعوت دی گئی ہے کہ وہ روح کی آواز پر دھیان دے۔
صرف سننے نہیں بلکہ عمل کرنے والے ہی برکت پاتے ہیں۔

سبق (فلادیلفیہ کلیسیا)🔹
کھلا ہوا دروازہ
خدا نے انجیل کے لیے ایک ایسا دروازہ کھولا جسے کوئی بند نہ کر سکا۔ یہ عالمی مشنری تحریک کی علامت تھی۔

وفاداری اور صبر
اس کلیسیا نے صبر اور ایمان میں ثابت قدمی دکھائی، اسی لیے خدا نے وعدہ کیا کہ وہ اُنہیں آنے والی "بڑی آزمائش" سے محفوظ رکھے گا۔

غالب آنے والے کی عزت
خدا کے ہیکل میں "ستون" → ابدی مضبوطی اور عزت۔
خدا کا نام" → خدا کی ملکیت اور شناخت۔
نیا یروشلم" → دلہن شہر میں میراث۔
یسوع کا نیا نام" → دلہن کلیسیا کو دیا جانے والا خاص مکاشفہ اور راز۔

عملی سبق
ایمان، محبت اور خدمت پر قائم رہنا ضروری ہے تاکہ کوئی ہمارا "تاج" نہ چھین لے۔
خلاصہ🔹
کلیسیا فلادیلفیہ ایک محبت، صبر اور مشنری جوش والا زمانہ تھا۔ خدا نے اُن کے لیے عظیم وعدے رکھے: حفاظت، ستون بننا، ابدی تعلق اور نئے نام کا انعام۔ یہ سب غالب آنے والوں کو ملے گا جو آخر تک وفادار رہیں گے۔

کلیسیا لَودِیکیہ (مکاشفہ 14–22آیات)🔹

تعارف🔹

لَودِیکیہ کلیسیا کا دور تقریباً 1906 عیسوی سے آج تک یعنی موجودہ زمانے کی نمائندگی کرتا ہے۔ برادر برینہم کے مطابق اس دور کا پیامبر ولیم برینہم ہے۔ لفظ "لاؤدکیہ" کا مطلب ہے: "لوگوں کا حق" یا "عوامی رائے"۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کلیسیا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی، اپنی سوچ اور اپنی رائے کے مطابق چلتی ہے، نہ کہ خدا کے کلام کے تابع۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دور "لوگوں کے اختیار" اور "انسانی مرکزیت" پر مبنی ہے۔ لاؤدکیہ آخری کلیسیا ہے اور اسی دور میں ہم آج زندہ ہیں، جو یسوع مسیح کی جلد آمد کے بالکل قریب کی نشانی ہے۔

باب3آیات 14–17 — ملامت🔹
اور لَودِیکیہ کی کلِیسیا کے فرِشتہ کو یہ لِکھ کہ جو آمِین اور سَچّا اور برحق گواہ اور خُدا کی خِلقَت کا مبدا ہے وہ یہ فرماتا ہے کہ۔
15 مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں کہ نہ تُو سرد ہے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد یا گرم ہوتا۔
16 پَس چُونکہ تُو نہ تو گرم ہے نہ سرد بلکہ نِیم گرم ہے اِس لِئے مَیں تُجھے اپنے مُنہ سے نِکال پھینکنے کو ہُوں۔
17 اور چُونکہ تُو کہتا ہے کہ مَیں دَولتمند ہُوں اور مالدار بن گیا ہُوں اور کِسی چِیز کا محتاج نہِیں اور یہ نہِیں جانتا کہ تُو کمبخت اور خوار اور غرِیب اور اَندھا اور ننگا ہے۔

یسوع خود کو "آمین" اور "سچا گواہ" کہہ کر متعارف کراتا ہے (مکاشفہ 3:14)۔
آمین" کا مطلب ہے یقیناً، ایسا ہی ہوگا۔ یہ اُس کی الٰہی سچائی اور وعدوں کی حتمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جو کچھ وہ فرماتا ہے، وہ ناقابلِ رد ہے۔
سچا اور برحق گواہ" → یسوع کلیسیا کے ہر عمل اور رویے کو درست طور پر جانتا ہے۔ وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا۔
خدا کی تخلیق کا آغاز" → اُس کی الوہیت اور ازلی حیثیت کا اعلان ہے (یوحنا 1:1–3)۔

ملامت: "نہ سرد نہ گرم🔹
یسوع کلیسیالَودِیکیہ پر سخت ملامت کرتا ہے
مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں کہ نہ تُو سرد ہے نہ گرم۔... پس چونکہ تُو نیم گرم ہے، میں تجھے اپنے منہ سے اُگل دوں گا۔" (مکاشفہ 3باب15–16)
نہ سرد = بالکل ایمان سے باہر نہیں، مگر روحانی حقیقت سے خالی۔🔹
نہ گرم = روح القدس کے جوش اور محبت سے معمور بھی نہیں۔🔹
نیم گرم = بے روح، لاپرواہ، سمجھوتہ کرنے والی، محض مذہبی رسموں پر قائم۔🔹
یہ حالت خدا کو سب سے زیادہ ناپسند ہے کیونکہ یہ روحانی فریب کی سب سے بدترین شکل ہے۔

خود فریبی: "میں دولت مند ہوں🔹
کلیسیا کہتی ہے: "میں دولت مند ہوں، مجھے کسی چیز کی حاجت نہیں۔" (مکاشفہ 3:17)
مادی لحاظ سے اُن کے پاس مال و دولت، بڑے بڑے گرجا گھر، سہولتیں اور مذہبی نظام تھے۔
مگر خدا کے نزدیک وہ حقیقت میں "بدبخت، بے چارہ، غریب، اندھے اور ننگے" تھے۔ یہ اس بات کا عکس ہے کہ دنیاوی کامیابی ہمیشہ روحانی کامیابی نہیں ہوتی۔
بائبلی حوالہ جات🔹
2تیمتھیس 3:5
وہ دِینداری کی وضع تو رکھّیں گے مگر اُس کے اثر کو قُبُول نہ کریں گے۔ اَیسوں سے بھی کِنارہ کرنا۔
یہ لَودِیکیہ کلیسیا کی صحیح تصویر ہے: مذہبی شکل ہے مگر روحانی قوت اور حقیقت غائب ہے۔
ہوسیع 4:6
میرے لوگ عدم معرفت سے ہلاک ہُوئے ۔
وہ اپنے آپ کو عقل مند اور دولت مند سمجھتے ہیں، مگر خدا کے کلام کی سچی پہچان کے بغیر جہالت میں مبتلا ہیں۔

باب3آیات 18–19 — یسوع کا علاج اور دعوتِ توبہ🔹

یسوع لودیکیہ کلیسیا کے روحانی مرض کا علاج خود پیش کرتا ہے۔🔹
مُجھ سے آگ میں تپایا ہُؤا سونا خرِید لے تاکہ دَولتمند ہو جائے اور سفید پوشاک لے تاکہ تُو اُسے پہن کر ننگے پن کے ظاہِر ہونے کی شرمِندگی نہ اُٹھائے اور آنکھوں میں لگانے کے لِئے سُرمہ لے تاکہ تُو بِینا ہو جائے۔

یہ تین چیزیں روحانی بحالی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں●
آگ میں تپا ہوا سونا → آزمودہ ایمان، جو مشکلات میں خالص ہو جاتا ہے۔ (1 پطرس 1:7)●
سفید لباس → پاکیزگی اور مسیح کی راستبازی (مکاشفہ 19:8)۔●
آنکھوں کا مرہم → روح القدس کی مکاشفہ دینے والی روشنی، جو اندھے دلوں کو بینائی عطا کرتی ہے۔●

یسوع فرماتا ہے●
مَیں جِن جِن کو عزِیز رکھتا ہُوں اُن سب کو ملامت اور تنبِیہ کرتا ہُوں۔ پَس سرگرم ہو اور تَوبہ کر۔(مکاشفہ 3:19)
یہ سخت الفاظ دراصل محبت کی پکار ہیں۔ یسوع کلیسیا کو جھڑکتا نہیں بلکہ بیدار کرنے کے لیے جھنجھوڑتا ہے، تاکہ وہ اپنی نیم گرم حالت کو پہچانے اور دوبارہ خدا کی طرف لوٹے۔

باب3آیت 20 — مسیح دروازے پر🔹
دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُؤا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اَندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ۔
یہ آیت بائبل کی سب سے حسین دعوت میں سے ایک ہے، مگر ساتھ ہی سب سے اداس منظر بھی۔
مسیح اپنی ہی کلیسیا کے دروازے کے باہر کھڑا ہے — رسمیّت، تنظیم، اور خودکفالت نے اُسے باہر کر دیا۔
لیکن ہر شخص کو ذاتی دعوت ہے: اگر کوئی دل کا دروازہ کھولے، یسوع اُس کے اندر آ کر رفاقت، محبت اور قربت قائم کرتا ہے۔
یہ آیت کلیسیا کے نظام سے ہٹ کر ایک انفرادی تعلق کی خوبصورت تصویر ہے۔

باب3آیات 21–22 — غالب آنے والے کے لیے وعدہ🔹

جو غالِب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بِٹھاؤں گا جِس طرح مَیں غالِب آ کر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے تخت پر بَیٹھ گیا۔
جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔
یہ ساتوں وعدوں میں سب سے اعلیٰ وعدہ ہے۔
غالب آنے والا صرف نجات نہیں پاتا بلکہ یسوع کے ساتھ بادشاہی میں شریک ہوتا ہے۔ یہ دلہن کلیسیا کا سب سے بلند مقام ہے — اپنے دلہن شوہر کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر حکومت کرنا۔
یہ انعام صرف اُن کے لیے ہے جو نیم گرمی سے نکل کر پوری وفاداری سے غالب آتے ہیں۔

سبق (کلیسیا لودیکیہ )🔹
سب سے بڑا خطرہ نیم گرمی اور خودکفالت ہے، جو روحانی اندھے پن کا باعث بنتی ہے۔
حقیقی دولت، پاکیزگی اور مکاشفہ صرف مسیح میں ہیں، دنیاوی مال و دولت میں نہیں۔
ہر شخص کو اپنے دل کا دروازہ کھولنا ہوگا تاکہ یسوع اندر آ سکے۔
غالب آنے والے کو دلہن کی حیثیت سے مسیح کے ساتھ تخت پر بیٹھنے کا شرف ملے گا اور وہ ابدی بادشاہی میں شریک ہوگا۔

مجموعی سبق (باب 2–3 — سات کلیسیائیں)🔹
افسس کلیسیا کلام کی تعلیم اور پرکھ میں مضبوط تھی
مگر اُس کی محبت سرد پڑ گئی۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ایمان میں صرف سچائی کافی نہیں بلکہ محبت کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔
سُمرنہ کلیسیا نے ظلم اور غربت کے باوجود اپنے ایمان میں وفاداری قائم رکھی
اس سے ہم سیکھتے ہیں کہ حقیقی ایمان موت تک وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔
پرگمنس کلیسیا ایمان پر قائم تو رہی
مگر دنیا سے اتحاد اور بدعتوں میں پڑ گئی۔ یہ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ بدعت اور نِقلائی روح سے بچنا ضروری ہے تاکہ ایمان خالص رہے۔
تھواتیرا کلیسیا خدمت اور صبر میں مشہور تھی
لیکن اُس نے ایزابل کی تعلیم کو برداشت کیا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں جھوٹے نظاموں اور غلط تعلیمات سے الگ رہتے ہوئے وفادار رہنا چاہیے۔
سردیس کلیسیا کے کچھ لوگ وفادار تھے
مگر کلیسیا مجموعی طور پر صرف نام کے اعتبار سے زندہ تھی۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایمان صرف نام نہیں بلکہ زندہ تعلق ہے، اور بیداری اور توبہ لازمی ہے۔
فلادیلفیہ کلیسیا محبت، بھائی چارے اور صبر میں مضبوط رہی
اُس پر کوئی ملامت نہیں کی گئی۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ صبر اور وفاداری ہمیں آنے والی عظیم آزمائش سے بچاتی ہے۔
لودیکیہ کلیسیا بظاہر خوشحال تھی
مگر روحانی طور پر نیم گرم اور خودکفیل ہو گئی۔ یہ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ ہمیں مسیح کو اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے تاکہ ہم اُس کے ساتھ تخت پر بیٹھنے کے لائق بن سکیں۔

نتیجہ🔹
ساتوں کلیسیائیں صرف تاریخ نہیں بلکہ ہر دور کے ایماندار کے لیے آئینہ ہیں۔
آخری زمانے میں لودیکیہ کی کلیسیا ہماری حالت کو ظاہر کرتی ہے — مگر غالب آنے والوں کے لیے اب بھی راستہ کھلا ہے۔
یسوع اب بھی دروازے پر کھٹکھٹا رہا ہے۔ جو دل کھولے گا، وہ اُس کے ساتھ ابدی رفاقت، تخت، اور جلال میں شریک ہوگا۔

تفسیر-باب 4 — آسمان کا دروازہ کھل گیا

تعارف🔹

باب4آیت 1 — آسمانی دروازہ اور بُلاہٹ
ان باتوں کے بعد جو مَیں نے نِگاہ کی تو کیا دیکھتا ہُوں کہ آسمان میں ایک دروازہ کھُلا ہُؤا ہے اور جِس کو مَیں نے پیشتر نرسِنگے کی سی آواز سے اپنے ساتھ باتیں کرتے سُنا تھا وُہی فرماتا ہے کہ یہاں اُوپر آ جا۔ مَیں تُجھے وہ باتیں دِکھاؤں گا جِن کا اِن باتوں کے بعد ہونا ضرُور ہے۔

"اِن باتوں کے بعد" 🔹
یہ الفاظ مکاشفہ کی ایک نئی تقسیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔باب 1 تا 3 میں یوحنا نے زمین پر کلیسیاؤں کے ادوار دیکھے —یعنی کلیسیا کی تاریخی حالت سات زمانوں میں۔
اب باب 4 سے “اِن باتوں کے بعد” یوحنا کو کلیسیا کے اُٹھائے جانے کے بعد کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جب دلہن کلیسیا زمین سے اُٹھائی جا چکی ہے،اور اب آسمان میں خدا کے تخت کے اردگرد مناظر دکھائے جاتے ہیں۔
برادر برینہم فرماتے ہیں
مکاشفہ باب 4 سے کلیسیا زمین پر نہیں رہتی۔ یوحنا دلہن کی نمائندگی کرتا ہے جسے اوپر بلایا گیا۔ آسمان میں کھلا ہوا دروازہ دراصل رَپچر کی علامت ہے۔

"آسمان میں دروازہ کھلا ہوا"🔹
یہ جملہ خدا کے مکاشفے کے لیے کھلے راستے کو ظاہر کرتا ہے۔اب زمین پر فیصلہ، تنظیم اور کلیسیائی حالت ختم ہو چکی —اور یوحنا (جو دلہن کی نمائندگی کرتا ہے) کو آسمانی مقام میں بلایا جاتا ہے۔یہ کھلا ہوا دروازہ وہی ہے جسے یسوع نے فلادیلفیہ کلیسیا میں ذکر کیا تھا
دیکھ مَیں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ کوئی اُسے بند نہِیں کر سکتا۔ (مکاشفہ 3:8)۔
وہ دروازہ روحانی طور پر اب آسمان میں کھل چکا ہے،جہاں خدا اپنے لوگوں کو اپنی حضوری میں لے جا رہا ہے۔

"نرسنگے کی مانند آواز"🔹
یہ وہی طاقتور آواز ہے جو خدا کے کلام سے آتی ہے —یہ آواز بلاتی، جگاتی اور اُٹھاتی ہے۔ یہ پہلا رَپچر کال ہے،جس کا تعلق 1 تھسلنیکیوں 4:16 سے ہے:
برادر برینہم وضاحت کرتے ہیں
وہ نرسنگے کی مانند آواز وہی ہے جو دلہن کو رَپچر کے وقت بلائے گی۔ یوحنا نے وہی آواز سنی جو دلہن سننے والی ہے — 'اوپر آ جا!

"اوپر آ جا" — آسمانی بُلند مقام کی دعوت🔹
یہ محض جسمانی چڑھائی نہیں، بلکہ روحانی بلندی ہے۔یہ دعوت ہے کہ یوحنا زمین کے فانی مناظر سے اوپر اُٹھ کرخدا کے ابدی منصوبے اور آسمانی حکمت کو دیکھے۔یہی دلہن کے لیے بھی دعوت ہے —کہ وہ زمین کی رسمیات، نظام اور دنیاوی چرچ کی حالت سے نکل کرآسمانی مکاشفے میں داخل ہو۔

بائبلی ربط🔹
پیدایش 5:24 — "حنوک خدا کے ساتھ چلتا رہا، اور وہ نہ رہا کیونکہ خدا نے اُسے اُٹھا لیا۔" → یوحنا کی طرح حنوک بھی کلیسیا کے اُٹھائے جانے کی علامت ہے۔
2 کرنتھیوں 12:2 — مَیں مسِیح میں ایک شَخص کو جانتا ہُوں۔ چَودہ برس ہُوئے کہ وہ یکایک تِیسرے آسمان تک اُٹھا لِیا گیا۔
→ پولس کا تجربہ یوحنا کے مکاشفے سے مطابقت رکھتا ہے۔
روحانی مفہوم
آسمانی دروازہ کھلنا = مکاشفے کی روحانی دنیا میں داخلہ۔
نرسنگے کی آواز = خدا کا زندہ کلام جو رَپچر کی آواز بنے گا۔
"اوپر آ جا" = دلہن کلیسیا کی روحانی بیداری اور اُٹھایا جانا۔
یہ آیت صرف یوحنا کی کہانی نہیں بلکہ دلہن کلیسیا کا مستقبل ہے —
زمین پر آخری زمانے کی کلیسیا کے بعد، آسمان میں بلائی گئی دلہناب خدا کے تخت کے گرد جمع ہوگی تاکہ اُس کی جلالی بادشاہی میں شریک ہو۔

باب4آیات 2–3 — خدا کا تخت اور اُس کی جلالی شان🔹
فوراً مَیں رُوح میں آگیا اور کیا دیکھتا ہُوں کہ آسمان پر ایک تخت رکھّا ہے اور اُس تخت پر کوئی بَیٹھا ہے۔
اور جو اُس پر بَیٹھا ہے وہ سنگِ یشب اور عقِیق سا معلُوم ہوتا ہے اور اُس تخت کے گِرد زُمُرّد کی سی ایک دھُنک معلُوم ہوتی ہے۔
"میں روح میں آ گیا" —●
یوحنا جسمانی طور پر نہیں بلکہ روح القدس کی مکاشفاتی حالت میں آسمانی مقام پر لے جایا گیا۔ یہ حالت کسی خواب یا خیال کی نہیں، بلکہ حقیقی روحانی تجربہ ہے، جیسا کہ حزقی ایل اور یسعیاہ نے بھی خدا کی حضوری میں دیکھا۔
"ایک تخت رکھا ہوا ہے" —●
آسمان میں سب سے پہلا منظر خدا کا تخت ہے، جو تمام اختیار، قدرت اور عدل کا مرکز ہے۔ یہ تخت کائنات کی بادشاہی کا مرکزِ اقتدار ہے، جہاں سے فیصلے اور عدالت جاری ہوتے ہیں۔

"سنگِ یشب اور عقِیق —●
یشب صاف شفاف اور سفید پتھر ہے جو پاکیزگی، روشنی اور جلال کی علامت ہے؛ جبکہ عقِیق سرخ رنگ کا پتھر ہے جو عدالت اور قربانی کے خون کی نشانی ہے۔ دونوں مل کر ظاہر کرتے ہیں کہ خدا ایک ہی وقت میں رحم والا بھی ہے اور منصف بھی۔

" زُمُرّد کی سی ایک دھُنک" —●
قوسِ قزح خدا کے عہدِ رحمت کی نشانی ہے (پیدایش 9:13)۔ تخت کے گرد قوس قزح کا مطلب ہے کہ اگرچہ خدا تختِ عدالت پر ہے، مگر اُس کے فیصلے اب بھی رحمت کے عہد سے وابستہ ہیں۔
برادر برینہم فرماتے ہیں
"یہ وہی خدا ہے جو کلیسیا کے درمیان ابنِ انسان کے روپ میں چل رہا تھا۔ اب وہ اُسی تخت پر بادشاہ کی حیثیت سے ظاہر ہو رہا ہے — عدالت کے وقت کے لیے تیار۔"
(Revelation Chapter Four, Part 2)

باب4آیات 4–5 — چوبیس بزرگ اور سات مشعلیں🔹
اور اُس تخت کے گِرد چَوبِیس تخت ہیں اور اُن تختوں پر چَوبِیس بُزُرگ سفید پوشاک پہنے ہُوئے بَیٹھے ہیں اور اُن کے سروں پر سونے کے تاج ہیں۔
اور اُس تخت میں سے بِجلِیاں اور آوازیں اور گرجیں پَیدا ہوتی ہیں اور اُس تخت کے سامنے آگ کے سات چِراغ جل رہے ہیں۔ یہ خُدا کی سات رُوحیں ہیں

چوبیس بزرگ —●
یہ پرانے اور نئے عہد کے مکمل نجات یافتہ مقدسین کی نمائندگی کرتے ہیں۔
پرانے عہد کے 12 قبائل
نئے عہد کے 12 رسول
مجموعی طور پر 24۔ یہ خدا کے سامنے کامل گواہوں اور عبادت گزاروں کی علامت ہیں۔
سفید لباس — راستبازی اور نجات کی علامت (مکاشفہ 19:8)۔●
سونے کے تاج — فتح اور ابدی انعام کی نشانی (2تیمتھیس 4:8)۔●
بجلیاں، آوازیں اور گرجیں — خدا کی عدالت کے قریب آنے کا اظہار۔●
سات مشعلیں — روح القدس کے سات ظہور، یعنی سات کلیسیا ادوار میں اُس کا کامل کام۔ ●
"خدا کی سات روحیں" ●
دراصل ایک ہی روح القدس کے سات پہلو ہیں، جو ہر زمانے میں دلہن کلیسیا میں ظاہر ہوئے۔

باب4آیات 6–8 شیشے کا سا سمندر🔹

آیات 6–8 مکاشفہ باب 4 کا نہایت گہرا اور روحانی حصہ ہیں، کیونکہ یہ آسمان کے تخت کے اردگرد موجود چار جاندار کی تصویر پیش کرتی ہیں۔
یہ جاندار محض فرشتے نہیں، بلکہ خدا کی چار روحانی قوتوں کی علامت ہیں جو کلیسیا کے ہر دور میں اُس کی حفاظت اور رہنمائی کرتی رہتی ہیں۔
اور اُس تخت کے سامنے گویا شِیشہ کا سَمَندَر بِلَّور کی مانِند ہے اور تخت کے بِیچ میں اور تخت کے گِردا گِرد چار جاندار ہیں جِن کے آگے پِیچھے آنکھیں ہی آنکھیں ہیں۔
پہلا جاندار ببر کی مانِند ہے اور دُوسرا جاندار بچھڑے کی مانِند اور تِیسرے جاندار کا چہِرہ اِنسان کا سا ہے اور چَوتھا جاندار اُڑتے ہُوئے عُقاب کی مانِند ہے۔

شیشے کا سا سمندر” — پاکیزگی اور راستبازی کا سمبل●
تخت کے سامنے “شیشے کا سمندر” یا “بلور کا سمندر” خدا کی کامل پاکیزگی کی نمائندگی کرتا ہے۔
زمین پر خیمۂ اجتماع میں کاہن عبادت سے پہلے “کانسی کے حوض” میں اپنے ہاتھ پاؤں دھوتے تھے (خروج 30باب18–21)۔
اب آسمان میں وہی تصویر “شیشے کے سمندر” کی صورت میں نظر آتی ہے —
یعنی پاکیزگی اب کسی ظاہری پانی سے نہیں بلکہ روح القدس کی تقدیس سے حاصل کی جاتی ہے۔
اس کا شفاف ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اب کلیسیا پوری طرح پاک، راستباز اور نجات یافتہ ہو چکی ہے — دلہن اپنے دلہن شوہر کے سامنے بے عیب کھڑی ہے۔

چار جاندار — خدا کی چار قوتیں🔹

چار جاندار خدا کی موجودگی کے اردگرد ہیں، جیسے حزقی ایل 1 اور یسعیاہ 6 میں بھی دکھائے گئے۔
یہ خدا کی چار پہلوؤں والی قوت کو ظاہر کرتے ہیں
جو ہر زمانے میں کلیسیا کے تحفظ، رہنمائی اور خدمت کے لیے کارفرما رہتی ہے۔

عبادت کا منظر🔹
چاروں جاندار دن رات خدا کے حضور کہتے ہیں:
“قدوس،قدوس،قدوس، خداوند قادرِ مطلق، جو تھا، جو ہے، اور جو آنے والا ہے۔”
یہ تثلیث نہیں بلکہ خدا کے ازلیت، موجودگی اور ابدیت کا اظہار ہے۔یعنی وہ ازل سے ہے، آج موجود ہے، اور ابد تک رہے گا۔یہ آسمانی منظر صرف فرشتوں کی عبادت نہیں، بلکہ اُس دلہن کلیسیا کا بھی پیش منظر ہےجو زمین پر فتح کے بعد آسمان پر اپنے خالق کی حضوری میں اسی طرح عبادت کرے گی۔

برادر برینہم نے چار جانداروں کی علامت کو نہ صرف کلیسیا کے ادوار بلکہ چار اناجیل، خدمات، اور پرانے و نئے عہدنامے کے نظام سے بھی جوڑا ہے۔
ان کے مطابق یہ چار جاندار خدا کی روح کی چار پہلوؤں والی کامل خدمت کو ظاہر کرتے ہیں جو ابتدا سے لے کر آخر تک ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہی ہے — یعنی دلہن کلیسیا کی حفاظت اور رہنمائی۔

شیر🔹
شیر طاقت، جرأت اور بادشاہی اختیار کی علامت ہے۔ اناجیل میں یہ متی کی انجیل سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ خدمت کے لحاظ سے یہ رسولی خدمت کی نمائندگی کرتا ہے، جو کلام کی قوت اور جرأت کے ساتھ منادی کرتی ہے۔ ہیکل میں یہ پیتل کی قربان گاہ کی علامت ہے، جہاں عدالت اور خون بہانے کا منظر ہے۔ برادر برینہم کے مطابق، یہ پرانے عہدنامے میں خدا کی بادشاہی عدالت کی تصویر پیش کرتا ہے۔

بچھڑا (بیل)🔹
بچھڑا قربانی، خدمت اور صبر کی علامت ہے۔ یہ مرقس کی انجیل سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں یسوع خادم کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس کی خدمت کی نوعیت شہداء اور قربانی پر مبنی ہے، جب کلیسیا نے ظلم و ستم کے دوران اپنی جانیں کلام کی خاطر قربان کیں۔ ہیکل میں یہ قربانی کے بیل کی مانند ہے، جو خدمت اور فروتنی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پرانے عہدنامے میں خدا کے خادم اور وفاداری کی علامت ہے۔

انسان🔹
انسان فہم، عقل اور دانائی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ لوقا کی انجیل سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں یسوع بطور کامل انسان دکھایا گیا ہے۔ خدمت کے لحاظ سے یہ اصلاحی خدمت کو ظاہر کرتا ہے، جب خدا نے انسانی فہم کے ذریعے کلیسیا کو سچائی کی طرف لوٹایا۔ ہیکل میں یہ مقدس کی خدمت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں روشنی، تعلیم اور علم موجود ہے۔ یہ نئے عہدنامے میں خدا بطور نجات دہندہ انسان کی تصویر ہے۔

عقاب🔹
عقاب مکاشفہ، روحانی بلندی اور الٰہی بصیرت کی علامت ہے۔ یہ یوحنا کی انجیل سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں یسوع بطور الٰہی کلام ظاہر ہوتا ہے۔ خدمت کی نوعیت نبیانہ اور آخری زمانے کی ہے، جس میں روح القدس کلیسیا کو آسمانی مکاشفے کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ ہیکل میں یہ پاک ترین مکان کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں خدا کی حضوری میں براہِ راست داخلہ ہوتا ہے۔ برادر برینہم کے مطابق، یہ نئے عہدنامے میں روح القدس کی مکاشفاتی خدمت کی علامت ہے۔

چار اناجیل🔹
برادر برینہم کہتے ہیں کہ متی، مرقس، لوقا اور یوحنا میں یسوع کی چار مختلف خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں ۔
وہ بادشاہ (شیر)، خادم (بچھڑا)، انسان (انسان)، اور خدا (عقاب) ہے۔

چار خدمات🔹
رسول → شیر کی جرأت اور طاقت
نبی → عقاب کی بصیرت اور مکاشفہ
مبشر / انجیلسٹ → بچھڑے کی خدمت اور قربانی
استاد → انسان کی فہم اور تعلیم

ہیکل میں تصویر🔹
برادر برینہم نے بتایا کہ اسرائیل کے خیمۂ اجتماع کے چاروں طرف یہی چار جانداروں کے نشان قبائل کے پرچموں پر بنے تھے:
مشرق → یہوداہ (شیر)
مغرب → افرائیم (بیل)
جنوب → رؤبن (انسان)
شمال → دان (عقاب)
(گنتی 2 باب)
یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی حضوری (عہد کا صندوق) چاروں طرف سے انہی جانداروں کی روحانی حفاظت میں تھی۔

پرانا اور نیا عہد🔹
پرانے عہد میں یہ چار قوتیں نبیوں اور شریعت کے ذریعے ظاہر ہوئیں۔●
نئے عہد میں یہی قوتیں کلیسیا کے چار مراحل میں کام کرتی ہیں●
ایمان (شیر) → قربانی (بیل) → فہم (انسان) → مکاشفہ (عقاب)

نتیجہ🔹
چار جاندار دراصل خدا کی چار قوتیں ہیں جو ابتدا سے لے کر آخر تک کلام، قربانی، فہم، اور مکاشفے کے ذریعے کلیسیا کی رہنمائی کرتی رہی ہیں۔ یہ چاروں اناجیل، خدمات، ہیکل کے مراحل اور عہدناموں میں خدا کے کامل منصوبے کو ظاہر کرتے ہیں ۔
یعنی شیر بادشاہ کی جرأت، بچھڑا قربانی کی روح، انسان فہم کی روشنی، اور عقاب مکاشفے کی بلندی۔

چاروں طرف اور اَندر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں 🔹
“آنکھیں ہی آنکھیں” سے مراد مکمل بصیرت ہے — خدا کی حضوری میں کوئی چیز چھپی نہیں۔ یہ جاندار خدا کی پوری تخلیق پر اُس کی گہری نظر اور علم کی علامت ہیں۔

باب 4آیت 9 🔹
اور جب وہ جاندار اُس کی تمجِید اور عِزّت اور شُکرگُذاری کریں گے جو تخت پر بَیٹھا ہے اور ابدُالآباد زِندہ رہے گا۔
یہ آیت آسمانی عبادت کے تسلسل کو بیان کرتی ہے۔ جب بھی یہ جاندار خدا کی تمجید کرتے ہیں، آسمان میں ایک ردِ عمل ہوتا ہے — جیسے عبادت ایک لہر کی طرح پھیل جاتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی عبادت مؤثر ہوتی ہے۔ جب کوئی دل سے خدا کی تمجید کرتا ہے، تو دوسرے بھی اُس جلال میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہ “تمجید، عزت، اور شکرگزاری” تین پہلوؤں پر مشتمل ہے
تمجید۔ اُس کی عظمت کا اعتراف۔
عزت ۔اُس کے اختیار اور حاکمیت کی تعظیم۔
شکرگزاری ۔اُس کے کاموں کے لیے دل کی گواہی۔
یہ تین عناصر مل کر کامل عبادت کی بنیاد ہیں۔ برادر برینہم فرماتے ہیں کہ آسمان میں سب کچھ عبادت کے دائرے میں گھومتا ہے — کیونکہ وہاں ہر چیز اپنی اصل خالق کی طرف جھکتی ہے۔

باب 4آیت 10 —🔹
تو وہ چَوبِیس بُزُرگ اُس کے سامنے جو تخت پر بَیٹھا ہے گِر پڑیں گے اور اُس کو سِجدہ کریں گے جو ابدُالآباد زِندہ رہے گا اور اپنے تاج یہ کہتے ہُوئے اُس تخت کے سامنے ڈال دیں گے کہ۔
یہاں آسمانی ترتیب کا حسن دکھایا گیا ہے۔ جیسے ہی جاندار تمجید کرتے ہیں، چوبیس بزرگ (جو پرانے اور نئے عہد کے مقدسین کی نمائندگی کرتے ہیں) اپنے تختوں سے گر پڑتے ہیں۔ یہ عمل عاجزی اور اطاعتِ خداوندی کی نشانی ہے۔— وہ اپنی عزت، مقام، اور تاج تک کو خدا کے حضور ڈال دیتے ہیں۔
تاج ڈالنا یعنی یہ اقرار کرنا کہ “یہ جیت، یہ عزت، یہ مقام — سب کچھ تیرا فضل ہے، ہمارا نہیں۔
برادر برینہم کہتے ہیں کہ یہی دلہن کلیسیا کا روحانی مقام ہے: وہ اپنی نیکی پر نہیں بلکہ فضل پر ناز کرتی ہے۔
یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ آسمان میں سب کچھ عاجزی اور شکرگزاری کے زیرِ سایہ ہے۔ جو جتنا قریب خدا کے ہے، وہ اُتنا ہی جھکنے والا ہے۔

باب 4آیت 11 —🔹
اَے ہمارے خُداوند اور خُدا تُو ہی تمجِید اور عِزّت اور قُدرت کے لائِق ہے کِیُونکہ تُو ہی نے سب چِیزیں پَیدا کِیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھِیں اور پَیدا ہُوئیں۔
یہ آیت آسمانی عبادت کا مرکزی نغمہ ہے۔ یہاں سب کچھ اُس کے خالق ہونے پر مرکوز ہے۔ تین الفاظ — تمجید، عزت، اور قدرت — خدا کے مکمل حقِ عبادت کو ظاہر کرتے ہیں۔
“تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں، اور وہ تیری مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں” — یہ جملہ خدا کی تخلیقی حاکمیت کا خلاصہ ہے۔ ہر مخلوق کا وجود اُس کی مرضی کا نتیجہ ہے۔
برادر برینہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مخلوق کی ہر چیز (آسمان، زمین، نجات، حتیٰ کہ ہمارا ایمان بھی) اُس کی مرضی اور منصوبے کا حصہ ہے — ہم یہاں حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ایک ازلی منصوبے کے تحت موجود ہیں۔
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عبادت کی بنیاد شکرگزاری اور شناخت ہے — جب ہم جان لیں کہ سب کچھ اُس کا ہے، تو ہم خودبخود جھک جاتے ہیں۔

مکاشفہ باب 4 خلاصہ🔹
آسمانی تخت گاہ کا منظر
یہ باب یوحنا کے آسمانی مکاشفے کا پہلا حصہ ہے، جہاں وہ روح میں اُٹھایا جاتا ہے اور خدا کے تخت کو دیکھتا ہے۔ یہ منظر کلیسیا کے زمانے کے بعد کا ہے، یعنی دلہن کے اُٹھائے جانے کے بعد آسمان کی ترتیب دکھائی گئی ہے۔
مرکزی نکات●
تخت اور اُس پر بیٹھنے والا●
یوحنا دیکھتا ہے کہ آسمان میں ایک تخت رکھا ہے، اور اُس پر بیٹھنے والا جواہر کی مانند جلال سے چمک رہا ہے۔ یہ خدا کے جلال اور حاکمیت کی علامت ہے۔ تخت کے گرد قوسِ قزح اُس کے وعدے اور وفاداری کی نشانی ہے۔
چوبیس بزرگ●
تخت کے اردگرد 24 تخت ہیں جن پر بزرگ بیٹھے ہیں۔ یہ پرانے اور نئے عہد کے مقدسین (12 قبیلے + 12 رسول) کی نمائندگی کرتے ہیں، یعنی نجات یافتہ کلیسیا خدا کے ساتھ شریکِ جلال ہے۔
سات چراغ اور شیشے کا سمندر●
تخت کے سامنے سات جلتے چراغ روح القدس کے سات پہلوؤں کی علامت ہیں۔ شیشے کا سا سمندر پاکیزگی، سکون اور خدا کی حضوری کی پاک فضا کی تصویر پیش کرتا ہے۔ چار جاندار●
تخت کے گرد چار جاندار ہیں — شیر، بچھڑا، انسان، اور عقاب۔
شیر = قوت اور شجاعت (رسولی دور)
بچھڑا = قربانی اور برداشت (ایذا رسانی کا دور)
انسان = حکمت اور سمجھ (اصلاحِ مذہب کا دور)
عقاب = مکاشفہ اور وحی (آخری زمانہ)
یہ چار قوتیں خدا نے کلیسیا کو ہر دور میں دی تاکہ وہ غالب آ سکے۔
آسمانی عبادت●
جاندار دن رات کہتے ہیں، "قدوس، قدوس، قدوس، خداوند خدا قادرِ مطلق!"
جیسے ہی وہ تمجید کرتے ہیں، چوبیس بزرگ گر کر اپنے تاج خدا کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں، کہتے ہیں
اَے ہمارے خُداوند اور خُدا تُو ہی تمجِید اور عِزّت اور قُدرت کے لائِق ہے کِیُونکہ تُو ہی نے سب چِیزیں پَیدا کِیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھِیں اور پَیدا ہُوئیں۔
خلاصہ و روحانی پیغام
یہ باب زمین سے آسمان کی طرف منتقلی کو ظاہر کرتا ہے — یوحنا کا اُٹھایا جانا دراصل کلیسیا کے اُٹھائے جانے کی علامت ہے۔
تخت خدا کی مطلق بادشاہی کا نشان ہے — سب کچھ اُس کے اختیار میں ہے۔
آسمان کی عبادت ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی ایمان ہمیشہ عبادت اور عاجزی میں ظاہر ہوتا ہے۔
برادر برینہم کے مطابق، یہ منظر اس وقت کی جھلک ہے جب برّہ (یسوع مسیح) باب 5 میں سات مہریں کھولنے کے لیے نمودار ہوگا — یعنی خدا کے منصوبے کی تکمیل کا آغاز۔

تفسیر-باب 5— برّہ اور سات مہروں والی کتاب

آیت 1 — مکاشفہ 5:1🔹
اور جو تخت پر بَیٹھا تھا مَیں نے اُس کے دہنے ہاتھ میں ایک کِتاب دیکھی جو اَندر سے اور باہِر سے لِکھی ہُوئی تھی اور اُسے ساتھ مُہریں لگا کر بند کِیا گیا تھا۔
“تخت پر بیٹھنے والا” — ابدی خدا●
یہ وہی خدا ہے جو مکاشفہ 4 میں تخت پر ظاہر ہوا —خالق، قادرِ مطلق، ازل و ابد کا مالک۔ وہ “روشنی میں بسا ہوا” ہے، اور اُس کی حضوری سےبجلیاں، آوازیں، اور گرجیں نکل رہی ہیں۔
برادر برینہم فرماتے ہیں●
یہ تخت رحمت کا نہیں بلکہ عدل کا تخت ہے،کیونکہ اب خدا نجات کے منصوبے کو ختم کر رہا ہے،اور صرف برّہ ہی اسے کھولنے کے لائق پایا گیا۔
(The Revelation Chapter Five, 1961)
“کتاب” — خدا کا ابدی منصوبہ●
یہ “کتاب” کوئی عام کتاب نہیں بلکہ کتاب حیات یانجات کی مہر بند دستاویز ہے —جسے خدا نے دنیا کی بنیاد سے پہلے خود اپنے ہاتھ سے لکھا۔یہ کتاب اندر اور باہر لکھی ہوئی ہے —یعنی یہ مکمل، بھرپور اور ہر پہلو سے طے شدہ ہے۔اس میں کچھ بھی اضافہ یا کمی ممکن نہیں۔یہی کتاب دراصل خدا کے پورے نجاتی منصوبے اور منتخبوں کے نام پر مشتمل ہے۔
افسیوں 1باب4–5●
“جس طرح اُس نے ہمیں دنیا کی بنیاد سے پہلے مسیح میں چُن لیا…”
برادر برینہم نے فرمایا●
“یہ کتاب خدا کی یاداشت ہے —جس میں اُس نے اپنے چنے ہوئے لوگوں کے نام لکھے، اور پھر اسے سات مہروں سے بند کر دیا تاکہ کوئی اور اُسے نہ چھیڑ سکے۔
(The Revelation of the Seven Seals – 1963)
“اندر اور باہر لکھی ہوئی” — مکمل منصوبہ●
یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ کتاب کے اندرخدا کے نجاتی راز لکھے ہیں،اور باہر اُس کے نتائج اور برکات۔
اندر — ●
برّہ کی قربانی، کلیسیا کے ادوار، دلہن کی شناخت، مکاشفے، اور عدالت کا منصوبہ۔ باہر —●
انسان پر ظاہر ہونے والی قدرت، فضل، اور نجات کی تکمیل۔
برادر برینہم کے مطابق●
“یہ کتاب اندر اور باہر لکھی ہوئی ہے کیونکہ خدا کا منصوبہ کسی انسان کے فہم سے باہر ہے — یہ خدا کے ذہن کی مکمل تحریر ہے،جسے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کا نام اُس میں لکھا گیا ہو۔
(The Breach Between the Church Ages and the Seals – 1963)
“سات مہریں” — راز کی مہر بندی●
کتاب پر سات مہریں لگی ہوئی ہیں۔ہر مہر ایک مخصوص زمانے، راز، یا مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ سات مہریں دراصل وہ سات پوشیدہ راز ہیںجو خدا نے زمانوں کے پردے کے پیچھے چھپا رکھے تھے،اور جو صرف “برّہ” کے ذریعے ظاہر ہو سکتے ہیں۔
یسعیاہ 29:11●
اورساری رویا تمہارے نزدیک سر بمہر کتاب کے مضمون کی مانند ہو گی جسے لوگ کسی پڑھے لکھے ہو دیں اور کہیں اسکو پڑھ اور وہ کہے کہ میں اسکو پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ سر بمہر ہے۔
برادر برینہم نے فرمایا●
“یہ سات مہریں خدا کے دماغ میں پوشیدہ تھیں —کوئی نبی، کوئی فرشتہ، کوئی انسان اُنہیں نہیں جان سکا،یہاں تک کہ خود یوحنا بھی جب یہ منظر دیکھ رہا تھا تو رونے لگا،کیونکہ کوئی لائق نہ پایا گیا جو اسے کھول سکے۔
(The Revelation of the Seven Seals – 1963)
“دائیں ہاتھ میں” — اختیار اور ملکیت●
کتاب خدا کے دائیں ہاتھ میں ہے،جو اُس کے اختیار، قدرت، اور ملکیت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نجات کا اختیار کسی انسان یا کلیسیا کے پاس نہیں بلکہ صرف خدا کے پاس ہے۔دائیں ہاتھ میں کتاب کا ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ خدا کا منصوبہ محفوظ، مکمل، اور ناقابلِ تغیر ہے۔کوئی انسان یا فرشتہ اُس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔
برادر برینہم کا مکاشفاتی خلاصہ●
“یہ کتاب خدا کی یادداشت ہے —جس میں اُس نے اپنے منتخبوں کے نام اور اُن کی کہانی لکھی ہے۔یہ کتاب برّہ کے خون سے مہر بند ہے،اور صرف برّہ ہی اُسے کھولنے کا حق رکھتا ہے۔جب اُس نے صلیب پر قیمت ادا کی،تو اُس نے کتاب کو نجات یافتہ انسانیت کے نام خرید لیا۔
(The Revelation of the Seven Seals, 1963)
“یہی وہ کتاب ہے جسے دانی ایل نے مہر لگا کر بند کر دیا تھا (دانی ایل 12:4)،
اور یوحنا کو حکم دیا گیا کہ وہ اسے مہر شدہ ہی چھوڑ دے (مکاشفہ 10:4) —
مگر اب آخری زمانے میں ‘برّہ’ نے اُسے کھول دیا ہے تاکہ دلہن کلیسیااُن رازوں کو سمجھ سکے جو ازل سے پوشیدہ تھے۔”
برادر برینہم نے فرمایا●
“یہ کتاب اب کھل گئی ہے —اور دلہن کلیسیا کو وہ راز بتائے جا رہے ہیں جو دنیا کی بنیاد سے چھپے ہوئے تھے۔یہی سات مہریں دلہن کو تیار کرتی ہیںتاکہ وہ اپنے برّہ سے ملنے کے لیے اُٹھائی جائے۔
(The Seventh Seal, 1963)

باب 5— آیت 2–3🔹
پھِر مَیں نے ایک زورآور فرِشتہ کو بُلند آواز سے یہ مُنادی کرتے دیکھا کہ کَون اِس کِتاب کو کھولنے اور اُس کی مُہریں توڑنے کے لائِق ہے؟اور کوئی شَخص آسمان پر یا زمِین پر یا زمِین کے نِیچے اُس کِتاب کو کھولنے یا اُس پر نظر کرنے کے قابِل نہ نِکلا۔
یہاں ایک زورآور فرشتہ اعلان کرتا ہے، جیسے ساری کائنات میں تلاش ہو رہی ہو کہ کون اتنا پاک، اتنا لائق، اور اتنا قریب ہے کہ خدا کے راز کو کھول سکے۔
لیکن نتیجہ یہ نکلا — کوئی بھی نہیں!
نہ کوئی نبی، نہ کوئی فرشتہ، نہ کوئی بزرگ، حتیٰ کہ یوحنا بھی نہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنی طاقت سے نجات یا مکاشفہ حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ صرف اُس کے ذریعے ممکن ہے جو خود خالق ہے اور نجات دینے والا بھی — یسوع مسیح۔
برادر برینہم کہتے ہیں
“یہ کتاب خدا کے مکمل منصوبے کی علامت ہے۔ کسی مخلوق میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ اسے کھول سکے، کیونکہ اس کے اندر زندگی اور نجات کا راز چھپا ہے۔

باب 5— آیت 4🔹
اور مَیں اِس بات پر زار زار رونے لگا کہ کوئی اُس کِتاب کو کھولنے یا اُس پر نظر کرنے کے لائِق نہ نِکلا۔
یوحنا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، کیونکہ اگر یہ کتاب بند رہتی تو نجات کی کہانی مکمل نہ ہوتی۔ انسان ہمیشہ کے لیے گناہ، موت، اور تاریکی میں پھنس جاتا۔
یہ منظر ایک نبی کے دل کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے — وہ صرف معلومات نہیں بلکہ نجات کا مکاشفہ چاہتا تھا۔
برادر برینہم فرماتے ہیں
“یوحنا کلیسیا کی نمائندگی کر رہا تھا۔ جب کلیسیا اپنے وقت میں کلام کو بند دیکھتی ہے، تو وہ روتی ہے۔ لیکن خدا کے پاس ہمیشہ ایک راستہ ہوتا ہے — برّہ۔
باب 5آیت 5🔹
تب اُن بُزُرگوں میں سے ایک نے مُجھ سے کہا کہ مَت رو۔ دیکھ۔ یہُوداہ کے قبِیلہ کا وہ ببر جو داؤد کی اصل ہے اُس کِتاب اور اُس کی ساتوں مُہروں کو کھولنے کے لِئے غالِب آیا۔۔
یہ وہ لمحہ ہے جب آسمان کی خاموشی خوشی میں بدل جاتی ہے!“یہوداہ کا ببر” — یعنی یسوع مسیح — وہی واحد ہے جس نے فتح حاصل کی۔
وہ “ببر” ہے کیونکہ اُس نے بہادری سے گناہ، موت، اور شیطان کو شکست دی۔
وہ “داؤد کی جڑ” ہے کیونکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، جو ابدی سلطنت کا وارث ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ نجات صرف قربانی سے نہیں، بلکہ غلبہ سے مکمل ہوئی — وہ غالب آیا تاکہ اب وہ “مہریں” کھول سکے۔

باب 5آیت 6🔹
اور مَیں نے اُس تخت اور چاروں جانداروں اور اُن بُزُرگوں کے بِیچ میں گویا ذِبح کِیا ہُؤا ایک برّہ کھڑا دیکھا۔ اُس کے ساتھ سِینگ اور سات آنکھیں تھِیں۔ یہ خُدا کی ساتوں رُوحیں ہیں جو تمام روی زمِین پر بھیجی گئی ہیں۔
یوحنا نے “ببر” سنا، مگر “برّہ” دیکھا●
یہ ایک نہایت حیرت انگیز تضاد ہے۔بزرگ نے یوحنا سے کہا“دیکھ، یہوداہ کے قبیلے کا ببر غالب آیا ہے” (آیت 5)۔لیکن جب یوحنا نے مڑ کر دیکھا — تو ببر نہیں بلکہ برّہ نظر آیا!
یہ مکاشفے کا راز ہے
شیر طاقت، اختیار اور عدالت کی علامت ہے۔
برّہ محبت، قربانی اور نجات کی علامت ہے۔
خدا نے دنیا کو شکست دینے کے لیے طاقت کا نہیں بلکہ قربانی کا راستہ چُنا۔یہ دکھاتا ہے کہ خدا کی فتح انسانی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ برّہ کے خون سے حاصل ہوئی۔
برادر برینہم کہتے ہیں
“یوحنا نے سوچا تھا کہ وہ ایک زورآور بادشاہ دیکھے گا، مگر اُس نے دیکھا ایک زخمی برّہ — یہی خدا کا طریقہ ہے۔ طاقت سے نہیں، محبت سے جیتنا۔”
جیسے ذبح کیا گیا ہو●
لفظ “ذبح کیا گیا” بتاتا ہے کہ برّہ پر قربانی کے نشانات اب بھی موجود تھے —گویا اُس کے جسم پر صلیب کے زخم ابھی بھی دکھائی دے رہے تھے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یسوع ہمیشہ اپنی قربانی کی نشانی کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔آسمان میں بھی وہ نجات دہندہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے — وہ جلال میں بھی "برّہ" کہلاتا ہے۔
یہ منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نجات قیمت کے بغیر نہیں ملی — اس کی قیمت خون ہے۔
وہ کھڑا تھا۔●
حالانکہ “ذبح کیا گیا” کہا گیا، لیکن یوحنا نے دیکھا کہ وہ کھڑا ہے۔یہ اس کی قیامت کا اعلان ہے۔وہ مر تو گیا، مگر اب ابد تک زندہ ہے۔
برادر برینہم فرماتے ہیں
“برّہ کھڑا ہے کیونکہ اُس کا کام مکمل نہیں ہوا — وہ اب سفارش کرنے والے اور جلال کے وارث کے طور پر موجود ہے۔
سات سینگ” — مکمل اختیار●
سینگ بائبل میں ہمیشہ طاقت اور اختیار کی علامت ہیں (زکریاہ 1باب18–21)۔
“سات سینگ” کا مطلب ہے کامل اختیار — یعنی یسوع کے پاس ہر دور، ہر قوم، اور ہر کلیسیا پر مکمل قدرت ہے۔اب وہ صرف نجات دہندہ نہیں، بلکہ بادشاہِ بادشاہان بھی ہے۔
سات آنکھیں” — کامل بصیرت●
آنکھ مکاشفے اور علم کی علامت ہے۔یہ سات آنکھیں روح القدس کے سات پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہیں جو زمین پر کام کر رہے ہیں (یسعیا 11:2)۔
یعنی برّہ اپنی روح کے ذریعے سب کچھ دیکھ رہا ہے، ہر کلیسیا، ہر دل، ہر دور۔کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں۔
جو خدا کی سات روحیں ہیں۔●
یہ روح القدس کی مکمل کارگزاری کو ظاہر کرتا ہے —یعنی وہی روح جو خدا کی تخت گاہ سے نکل کر دنیا میں کام کرتی ہے۔یہی سات روحیں سات کلیسیائی ادوار میں ظاہر ہوئیں —ہر دور میں برّہ اپنے نبی، اپنے کلام، اور اپنے روح کے وسیلے سے ظاہر ہوتا رہا۔
سات کلیسیائی پیغامبر جن کے ذریعے مسیح نے اپنی کلیسیا پر نگاہ رکھی، اسے روشنی، وحی، اور رہنمائی دی۔ ہر پیغامبر (پولوس،آرینس،مارٹن،کولمبا،مارٹن لوتھر،جان ویسلی اور برادر برینہم) ایک “آنکھ” کی مانند تھا — جو روح القدس کے وسیلے سے مسیح کا علم ظاہر کرتا رہا۔
روحانی مطلب●
یوحنا نے طاقت کی توقع کی، مگر خدا نے محبت اور قربانی دکھائی۔
دنیا “ببر” دیکھنا چاہتی ہے، لیکن آسمان “برّہ” دکھاتا ہے۔
حقیقی فتح عاجزی، قربانی، اور اطاعت میں ہے۔
برادر برینہم نے فرمایا
“یہ منظر خدا کے دو پہلو ظاہر کرتا ہے — بادشاہ کی شان (ببر) اور نجات دہندہ کا دل (برّہ)۔ دونوں ایک ہی مسیح میں جمع ہیں۔
برّہ کتاب لیتا ہے اور آسمان جھک جاتا ہے🔹
باب 5آیت 7🔹
اُس نے آ کر تخت پر بَیٹھے ہُوئے کے دہنے ہاتھ سے اُس کِتاب کو لے لِیا۔
یہ منظر پوری بائبل کی تاریخ کا مرکزی موڑ ہے۔اب تک کتاب بند تھی، کوئی کھول نہیں سکتا تھا — مگر اب برّہ آگے بڑھتا ہے اور کتاب لے لیتا ہے۔
یہ “لے لینا” صرف کوئی عام حرکت نہیں —یہ اس بات کا اعلان ہے کہ:
“اب نجات کا منصوبہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔
یہ وہ گھڑی ہے جب یسوع اپنی شفاعتی خدمت سے بادشاہی کے تخت پر جلوہ گر ہو رہا ہے۔ اب وہ صرف “شفاعت کرنے والا برّہ” نہیں بلکہ “راز کھولنے والا نجات دہندہ” بن گیا ہے۔
برّہ نے کتاب کیوں لی؟🔹
کیونکہ صرف وہی لائق تھا (آیت 5) —
اُس نے:
خون بہا کر انسان کو خریدا،گناہ پر غالب آیا،اور خدا کی مرضی کو پوری طرح پورا کیا۔ اب وہ نجات کے تمام حق کا مالک ہے۔یہ ایسا ہے جیسے آدم نے جو کچھ کھویا تھا، وہ یسوع نے واپس لے لیا —
اب “ملکیت کا عمل” دوبارہ اصلی مالک (خدا کے بیٹے) کے ہاتھ میں ہے۔
برادر برینہم فرماتے ہیں
“یہ وہی کتاب ہے جو آدم کے زمانے میں گم ہو گئی تھی، اور اب برّہ اُسے واپس لے رہا ہے — یہ دلہن کے فدیے کی کتاب ہے!

باب 5آیت 8🔹
جب اُس نے کِتاب لے لی تو وہ چاروں جاندار اور چَوبِیس بُزُرگ اُس برّہ کے سامنے گِر پڑے اور ہر ایک کے ہاتھ میں بربط اور عُود سے بھرے ہُوئے سونے کے پیالے تھے۔ یہ مُقدّسوں کی دُعائیں ہیں۔
اب جیسے ہی برّہ کتاب لیتا ہے —فوراً آسمان جھک جاتا ہے!یہ پہلا ردِعمل ہے — عبادت۔
“چار جاندار اور چوبیس بزرگ”●
یہ وہی ہیں جو باب 4 میں خدا کے تخت کے اردگرد تھے۔
چار جاندار: خدا کی چار قوتوں (شیر، بچھڑا، انسان، عقاب) کی علامت ہیں — جو کلیسیا کو ہر دور میں غالب ہونے میں مدد دیتی ہیں۔
چوبیس بزرگ: نجات پانے والے بزرگ ہیں جو پرانے اور نئے عہد کے نمائندے ہیں۔
اب وہ سب برّہ کے آگے جھک کر گرتے ہیں —یہ اس بات کی علامت ہے کہ ساری تخلیق برّہ کے جلال کے آگے تسلیم کرتی ہے۔
“بربط” — عبادت کی موسیقی●
بزرگوں کے ہاتھ میں “بربط” (ہارپ) ہیں — یہ خوشی، شکرگزاری، اور حمد کی علامت ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی عبادت دل سے نکلتی ہے، جو مکاشفے پر مبنی ہو۔جب آپ جان لیتے ہیں کہ برّہ نے آپ کے لیے کیا کیا، تو عبادت خود بخود نکلتی ہے۔
“سونے کے پیالے جو مقدسوں کی دعائیں ہیں”●
یہ نہایت خوبصورت منظر ہے ،آسمان میں ہماری دعائیں بیکار نہیں جاتیں —وہ خوشبو کی طرح پیالوں میں جمع ہوتی ہیں۔اورفرشتے اور بزرگ اُن دعاؤں کو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں۔ یعنی جب ہم زمین پر رو کر یا ایمان سے دعا کرتے ہیں، وہ دعائیں آسمان میں “بربادی نہیں” بلکہ “عبادت” بن جاتی ہیں۔
برادر برینہم کہتے ہیں
“یہ پیالے وہ دعائیں ہیں جو مقدسوں نے خدا کی مرضی کے پورا ہونے کے لیے کیں — اب وہ وقت آ گیا ہے کہ وہ دعائیں پوری ہوں!”
باب 5آیت 9–10🔹
اور وہ یہ نیا گِیت گانے لگے کہ تُو ہی اِس کِتاب کو لینے اور اُس کی مُہریں کھولنے کے لائِق ہے کِیُونکہ تُو نے ذِبح ہوکر اپنے خُون سے ہر ایک قبِیلہ اور اہلِ زبان اور اُمّت اور قَوم میں سے خُدا کے واسطے لوگوں کو خرِید لِیا۔ اور اُن کو ہمارے خُدا کے لِئے ایک بادشاہی اور کاہِن بنا دِیا اور وہ زمِین پر بادشاہی کرتے ہیں۔
یہ نیا گیت صرف کلیسیا (دلہن) گاتی ہے — فرشتے نہیں۔کیونکہ صرف نجات پانے والے ہی جانتے ہیں کہ “خون سے خریدا جانا” کیا ہوتا ہے۔یہ گیت نجات، قربانی، اور محبت کی گواہی ہے۔
“ہر قبیلے، زبان، اور قوم” — ●
یہ ظاہر کرتا ہے کہ نجات کا پیغام کسی ایک قوم یا مذہب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔یہ وہی دلہن ہے جسے برادر برینہم “تمام قوموں سے بلائی گئی کلیسیا” کہتے ہیں۔
باب 5آیت 11–12 🔹
اور جب مَیں نے نِگاہ کی تو اُس تخت اور اُن جانداروں اور بُزُرگوں کے گِردا گِرد بہُت سے فرِشتوں کی آواز سُنی جِن کا شُمار لاکھوں اور کروڑوں تھا۔
اور وہ بُلند آواز سے کہتے تھے کہ ذِبح کِیا ہُؤا برّہ ہی قُدرت اور دَولت اور حِکمت اور طاقت اور عِزّت اور تمجِید اور حمد کے لائِق ہے۔
یہ صرف چند آوازیں نہیں بلکہ پورے آسمان کا شورِ جلال ہے۔ یوحنا کہتا ہے: “ہزاروں لاکھوں فرشتے” — یعنی اتنی بڑی تعداد کہ گنی نہیں جا سکتی۔ ہر مخلوق ایک ہی بات کہہ رہی ہے: “برّہ لائق ہے!”
یہ آسمان کی سب سے بڑی عبادت ہے، جہاں سب ایک ہی مرکز پر متفق ہیں — یسوع مسیح۔ اب کوئی انسان، فرشتہ یا نبی نہیں، صرف برّہ ہی مرکزِ تمجید ہے۔
سات خصوصیات ( قُدرت اور دَولت اور حِکمت اور طاقت اور عِزّت اور تمجِید اور حمد ) دراصل اُس کے سات پہلوؤں والے جلال کی علامت ہیں۔ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نجات، بادشاہی، حکمت، اختیار، اور جلال — سب اُسی کے ہیں۔
یہ بھی دھیان دینے کی بات ہے کہ فرشتے "خون سے خریدے" نہیں گئے، مگر وہ پھر بھی برّہ کی عبادت کر رہے ہیں، کیونکہ وہ اُس کے کام کو تسلیم کرتے ہیں۔
فرشتوں کی یہ آواز دراصل پوری مخلوق کی گواہی ہے کہ نجات اور حکمرانی صرف برّہ کی ہے۔
برادر برینہم فرماتے ہیں:
“یہ وہ لمحہ ہے جب آسمان اور زمین کا ہر رُخ ایک ہی دُھن میں گونج اٹھتا ہے — ‘لائق ہے برّہ!’ — یہی ساری مخلوق کا ابدی نغمہ ہے۔”

باب 5آیت3 1–14 🔹
پھِر مَیں نے آسمان اور زمِین اور زمِین کے نِیچے کی اور سَمَندَر کی سب مخلُوقات کو یعنی سب چِیزوں کو جو اُن میں ہیں یہ کہتے سُنا کہ جو تخت پر بَیٹھا ہے اُس کی اور برّہ کی حمد اور عِزّت اور تمجِید اور سلطنت ابدُالآباد رہے۔ اور چاروں جانداروں نے آمِین کہا اور بُزُرگوں نے گِر کر سِجدہ کِیا۔
پوری کائنات کی عبادت🔹
یوحنا کہتا ہے: میں نے ہر مخلوق — آسمان، زمین، سمندر، اور زمین کے نیچے — سب کو برّہ کی تمجید کرتے سنا۔
اب صرف فرشتے نہیں بلکہ پوری کائنات ایک آواز میں کہہ رہی ہے: "تخت پر بیٹھنے والے اور برّہ کو تمجید، عزت، جلال اور قدرت ابدُالآباد رہے!
یہ نجات کے مکمل ہونے کا منظر ہے جہاں سب مخلوق تسلیم کرتی ہے کہ جلال صرف یسوع مسیح کا ہے۔
خدا باپ اور برّہ اب الگ نہیں — خالق اور نجات دہندہ ایک ہی تخت پر ظاہر ہیں۔
یہ اُس جلال کی گواہی ہے جو فدیے کے خون کے سبب ممکن ہوا۔
چار جاندار کہتے ہیں: "آمین!" — یعنی آسمان تصدیق کرتا ہے کہ یہ جلال ابدی ہے۔
چوبیس بزرگ اپنے تختوں سے گرتے ہیں اور اپنے تاج برّہ کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ اس بات کا اقرار ہے کہ تمام عزت، اختیار، اور کامیابی صرف اُس کے ہیں۔
اب عبادت اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے — کوئی مخلوق خاموش نہیں، سب اُس کی حمد میں شریک ہیں۔
یہ وہ منظر ہے جب آسمان، زمین، اور کلیسیا سب ایک نغمہ گاتے ہیں: “لائق ہے برّہ، ابد تک جلال اُسی کا ہے!”

باب 5 —خلاصہ 🔹
برّہ اور بند کتاب
یوحنا نے خدا کے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جو سات مہروں سے بند تھی — یہ خدا کے نجاتی منصوبے کی علامت تھی۔آسمان، زمین یا سمندر میں کوئی بھی اُس کتاب کو کھولنے کے لائق نہ پایا گیا، اور یوحنا رو پڑا۔پھر ایک بزرگ نے کہا: “مت رو! یہوداہ کا ببر، داؤد کی جڑ، غالب آیا ہے تاکہ کتاب کھولے۔”یوحنا نے ببر کی تلاش کی، مگر دیکھا برّہ — جیسے ذبح کیا گیا ہو — یعنی یسوع مسیح، جو قربان ہو کر جلال پایا۔برّہ نے کتاب لی، اور آسمان میں عبادت چھا گئی؛ بزرگ اور جاندار اُس کے آگے گر گئے۔
انہوں نے نیا گیت گایا: “تُو لائق ہے، کیونکہ تُو ذبح ہوا اور اپنے خون سے ہمیں خدا کے لیے خریدا۔”پھر لاکھوں فرشتوں نے آواز دی: “برّہ قدرت، دولت، حکمت، جلال، اور عزت کے لائق ہے!”آخر میں پوری کائنات ایک ساتھ اُس کی تمجید کرنے لگی — خالق اور نجات دہندہ ایک ہی تخت پر ظاہر ہوئے۔
مرکزی پیغام🔹
برّہ (یسوع مسیح) ہی واحد لائق ہے جو خدا کے راز اور نجات کے منصوبے کو ظاہر کر سکتا ہے،اور ساری مخلوق اُس کے آگے جھک کر کہتی ہے:
“لائق ہے برّہ، جلال اُس کا ہے ابد تک!”

Leave a Comment